این اے 108 میں شکست، تحریک انصاف کے مقبولیت کے دعوے غلط ثابت

Jun 10, 2015

لاہور(فرخ سعید خواجہ) مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان پنجاب میں سیاسی رسہ کشی الیکشن 2013 سے پہلے شروع ہوچکی تھی تاہم تحریک انصاف نے الیکشن کے ایک برس بعد انتخابی نتائج کو دھاندلی قرار دے کر آزادی مارچ اور دھرنا سیاست سے مسلم لیگ ن کے ساتھ محاذ آرائی کو عروج پر پہنچا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومتی پالیسیوں کے باعث ان کا گراف گرا ہے جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملتان میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کے بعد منڈی بہائوالدین میں این اے 108 میں تحریک انصاف کے امیدوار طارق تارڑ کی مسلم لیگ ن کے ممتاز تارڑ سے لگ بھگ 37 ہزارووٹوں کی لیڈ سے شکست نے تحریک انصاف کے دعوئوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔ الیکشن 2013 میں اس حلقہ انتخاب سے مسلم لیگ ن کے ممتاز تارڑ 73 ہزار 789 ووٹ حاصل کرکے ہار گئے تھے۔ ان سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے اعجاز احمد چودھری اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن منڈی بہائوالدین کے عرصہ دراز تک ضلعی صدر رہنے والے دیوان مشتاق کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ نہیں دیئے تھے۔ ان دونوں نے پینل بناکر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ اعجاز احمد چودھری نے ممتاز تارڑ کے 73 ہزار 789 ووٹوں کے مقابلے میں 85 ہزار 9 ووٹ حاصل کئے تھے۔ اعجاز احمد چودھری جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں چلے گئے تھے۔ دیوان مشتاق اگرچہ ہار گئے تھے لیکن وہ اعجاز احمد چودھری کے ساتھ چلتے رہے تاہم اعجاز احمد چودھری کے نااہل ہوجانے کے بعد ضمنی الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں حمزہ شہباز نے دیوان مشتاق کی مشرف دور میں سیاسی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے گلے لگا لیا اور ان کی صاحبزادی فائزہ مشتاق کو پنجاب اسمبلی کی خاتون ممبر منتخب کروا دیا۔ یہ نشست پنجاب اسمبلی کی رکن کرن ڈار کے سینیٹر منتخب ہوجانے سے خالی ہوئی تھی۔ فائزہ مشتاق (آج) جمعرات کو شروع ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حلف اٹھائیں گی۔ دیوان مشتاق کے ممتاز تارڑ کی پشت پر آجانے سے نقشہ پلٹ گیا۔ ادھروزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی سے عوام کا ان پر اعتماد بحال ہوچکا ہے۔ سو تحریک انصاف کے امیدوار طارق تارڑ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ الیکشن 2013 میں 73 ہزار 789 ووٹ حاصل کرنے والے ممتاز تارڑ نے اس ضمنی الیکشن میں اس سے لگ بھگ چار ہزار ووٹ زائد لئے۔ اس مرتبہ انہیں 77 ہزار 800 کے قریب ووٹ پڑے جو مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کا مظہر ہی کہلانا چاہئے۔

مزیدخبریں