عمران کو روایتی سیاست کا نقصان اور گلگت بلتستان

ملتان اور منڈی بہاﺅ الدین کے ضمنی الیکشن میں عمرن خان ہار گئے۔ تحریک انصاف زندہ ہی عمران کی وجہ سے ہے۔ سنا ہے شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کا وارث بننا چاہتے ہیں، انہیں خبر نہیں کہ عمران کے بغیر تحریک انصاف ختم ہو جائے گی۔ تحریک انصاف میں کوئی بھی عمران خان جیسا نہیں ہے۔ وہ انقلابی ہے اور انتخابی بھی ہے مگر دونوں کو رلا ملا نہیں سکا۔ شاہ محمود قریشی جیسا مصنوعی سیاستدان عمران کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ جاوید ہاشمی پر نظر کچھ دیر کیلئے ٹھہری تھی مگر وہ کسی سازش کا شکار ہوئے۔ لوگ اس کا کریڈٹ نواز شریف کو بھی دیتے ہیں مگر جاوید ہاشمی خود اپنے مخالف ہیں، غلطی کی کہ ن لیگ کو چھوڑ دیا اور پھر تحریک انصاف کو چھوڑنا ”ہور برا کیتا“ والی غلطی تھی جو ان سے کرائی گئی۔ پھر انہوں نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ چودھری نثار علی خان ان کا مخالف نہ تھا انہوں نے خود چودھری صاحب کو اپنا دشمن بنایا جبکہ چودھری صاحب کا دشمن وہ نہ بن سکے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ شاہ محمود بنا بنایا دشمن ہے۔ انہوں نے استعفیٰ قومی اسمبلی سے کیوں دیا اور پھر الیکشن میں کیوں جا پڑے۔ میں نے اپنے کالم میں ان سے کہا تھا کہ الیکشن نہ لڑو۔ انہیں معلوم ہے کہ انہیں کس نے ہروایا۔ شاہ محمود کی کیا مجال ہے وہ تو اب بھی ملتان میں اپنے امیدوار کو جتوا نہیں سکا۔ سنا ہے عمران نے اس کی سرزنش بھی کی ہے۔ نجانے جاوید ہاشمی کیسے ہار گئے۔ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار تھا مگر اس کا کریڈٹ شاہ محمود نے لیا۔ اس کے ڈس کریڈٹ بھی بہت ہیں۔ 

عمران کو ”روایتی“ سیاستدان بنانے میں شاہ محمود قریشی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر عمران روایتی سیاستدان نہ بنا تو میرا کیا بنے گا۔ ملتان میں ن لیگ اور تحریک انصاف کے امیدوار چچا بھتیجا تھے۔ دونوں میں کچھ فرق نہ تھا۔ لیگ اور تحریک انصاف میں فرق کیا ہوا۔ ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں، دونوں کے لوگوں نے اس سلسلے میں نواز شریف کا ساتھ دیا، عمران خان اس لحاظ سے دو نمبر ہے۔ شاہ محمود کے لئے دس نمبر ٹھیک ہے۔ منڈی بہاﺅ الدین میں دونوں طرف تارڑ تھے۔ لوگوں نے سوچا کہ عمران خان اس قدر روایتی ہو گیا ہے تو پھر نوازشریف ہی ٹھیک ہے۔ روایتی سیاست میں وہ نواز شریف کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ نواز شریف سے مختلف ہو گا تو لوگ کوئی مختلف فیصلہ کر سکیں گے۔ اگر وہ نواز شریف جیسا ہے تو روایتی سیاست کے میدان میں لوگوں کا انتخاب نواز شریف ہو گا۔ نواز شریف اسے روایتی سیاستدان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اگر آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو نتیجہ مختلف ہوتا مگر ٹکٹوں کی بندربانٹ نے پہلے بھی عمران کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ منڈی بہاﺅ الدین کیلئے بھی وہی چکر چلایا گیا ہے۔ تارڑ جیت گیا تارڑ ہار گیا۔ منڈی بہاﺅ الدین کے اپنے تارڑ کیلئے برادرم خواجہ عمران نذیر، پرویز ملک، خواجہ احمد حسان نے مبارکباد دی ہے۔ عمران نذیر ایم پی اے ہے، ایک وزیر کی طرح ن لیگ کے لئے مخلص اور سرگرم ہے۔ وہ حمزہ شریف کے بھی قریب ہے اور دن رات سیاسی معاملات میں مصروف رہتا ہے۔ اسے دو تین بار پنجاب یونیورسٹی کے دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے پاس دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ تعلیمی معاملات میں بھی دلچسپی لیتا ہے۔
اب نوبت یہ آ پہنچی ہے کہ ”صدر“ زرداری بھی عمران خان کو خاطر میں نہیں لاتے۔ عمران زرداری کے بقول مچھر ہے تو زرداری ذرا مچھر دانی سے باہر تو نکلیں۔ ان کا خیال ہے کہ بلاول عمران کا توڑ کر لے گا تو یہ ناممکن ہے۔ بلاول جب تک اپنے والد گرامی کو مکمل طور پر اور جینوئن طریقے سے مسترد نہیں کر دیتا تو اس کی تھوڑی سی کامیابی بھی مشکوک ہے۔ وہ اگر پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اپنے ڈیڈی ”صدر“ زرداری کو چیلنج کرے۔ اس کے نانا بھٹو صاحب صدر ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ وہ ڈیڈی سے بغاوت نہ کرتے تو کبھی سرخرو نہ ہوتے۔
پنجاب میں کہیں پیپلز پارٹی نظر نہیں آتی۔ جو ہاتھ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا ہے وہ ناقابل یقین اور ناقابل بیان ہے۔ نواز شریف کے ساتھ مفاہمتی سیاست تھی تو پھر ضمنی الیکشن میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر باری کا معاملہ ہے اور یقیناً ہے تو پھر اگلے عام الیکشن کا انتظار ٹھیک تھا مگر اضطراب بندے کو جلدباز کر دیتا ہے۔
گلگت بلتستان کو صوبہ ”صدر“ زرداری نے بنایا۔ انہیں کیا سوجھی کہ نہ کوئی تحریک تھی نہ مطالبہ نہ مقامی لوگوں کی کوئی خواہش۔ نہ بظاہر پیپلز پارٹی کا کوئی مفاد تھا تو یقیناً ”صدر“ زرداری کا کچھ فائدہ ہو گا! گلگت بلتستان تو آزاد کشمیر کا حصہ تھا۔ مجھے ذاتی طور پر سردار عتیق احمد خان نے بتایا کہ یہ کوئی گہری سازش ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے خلاف؟ اب اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے ہوئی تو آزاد کشمیر کسی گنتی شمار میں نہیں ہو گا۔ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ کیوں ہوا؟ اتنا اچانک اتنا ناگہانی۔ اور وہاں پہلے الیکشن میں سب جماعتیں شریک ہوئیں اب بھی شریک ہیں۔ سیاستدانوں کو صرف حکومت کی فکر ہے۔
وہاں پیپلز پارٹی کا شرمناک طریقے سے ہارنا کیا ہے؟ لگتا ہے اب ”صدر“ زرداری یہاں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ اس کا کوئی فائدہ اب انہیں نہیں ہے۔ باری نواز شریف کی ہے سو وہ جیت گئے۔ دوسرے نمبر پر بھی پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ اس کے وزیراعلیٰ مہدی شاہ ہار گئے وہ ایک ٹی وی چینل پر بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔ اپنی ہار پر خوش خوش؟
یہاں ایک استقامت والے سیاستدان حافظ حسین احمد نے کہا اور یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ میرے پاس اس کی کٹنگ بھی کہیں ہو گی۔ ”صدر“ زرداری نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کیلئے کروڑوں روپے لے لئے۔ ارب کروڑوں سے بنتا ہے۔ اب گلگت بلتستان میں ”صدر“ زرداری کی دلچسپی نہیں ہے وہ جانیں جنہوں نے کروڑوں لگائے ہیں۔ حافظ حسین احمد بہت دل والے عالم دین ہیں۔ بہت بذلہ سنج اور سچ کے لئے قربانی دینے والے ہیں۔ ان کی ”صدر“ کے لئے بات پر غور ہونا ضروری ہے۔
عمران خان یہاں دوسرے نمبر پر رہے۔ عمران خان مسلسل نمبر دو بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ پرویز رشید انہیں دو نمبر کہنے لگے ہیں۔ ایک بہت انوکھے سیاستدان انقلاب کے داعی مقبول لیڈر کی ناکام روایتی اور جلد باز سیاست نے انہیں پوری طرح نمایاں نہ ہونے دیا اس کا افسوس رہے گا۔ وقتی کامیابی نواز شریف کو مل رہی ہے۔ عمران کے بقول وہ دھاندلی سے جیتے تھے تو اب کیوں جیت رہے ہیں؟ اب دھاندلی کا ملبہ خود عمران پر گر رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت عمران کے گلے پڑ گئی ہے؟
گلگت بلتستان میں جو کچھ ”صدر“ زرداری نہ کر سکے وہ وزیراعظم نواز شریف کر دکھائیں گے جو ”صدر“ زرداری نے کرنا تھا کر گئے۔ ہمیشہ نیا آنے والا ادھورے کام کو آگے بڑھاتا ہے وہاں کسی طرح کی دوسری سازش چین کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہو گی۔ یہ المیہ تو شاید اب نہ بن سکے کہ چین کے مفادات بھی پاکستان میں بہت ہیں۔ چین بہت حوصلے اور انتظار کی تہذیب کا ملک ہے۔ اس خطے کی قسمت کا فیصلہ اب چین کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ہے۔ چین شاہراہ ریشم کے بعد اکنامک کاریڈور سوچ سمجھ کر بنا رہا ہے۔ اب یہ کاریڈور بنے گی۔ بھارت بہت بے چین ہے مگر چین اب اس خطے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گااور پھر گلگت بلتستان کا فیصلہ بھی ہو گا کہ اسے الگ صوبہ ہونا بھی چاہئے یا نہیں!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...