مَہاتما یا ”مہاطمع“

سینکڑوں سال قبل مسیح اُنتیس سالہ نوجوان، شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دُنیا داروں کو چھوڑ کر جنگلوں بیابانوں میں گیان دھیان میں مدتوں، آلتی پالتی مار کر دُنیا کو امن و آتشی سکون، بھائی چارہ، اخوت اور سچ کا گہوارہ بنانے اور برائی اور مشکلات سے بچانے کی تلاش کی خاطر اتنی یکسوئی، لگن سے سانس روک کر بُت بن کر منہمک ہوگئے، کہ چڑیاں اور پرندے بھی دھوکہ کھا گئے اور اُن کے بالوں میں گھونسلے بنالئے۔ مگر مہاتما بدھ نامی، بدھ بھکشوں، بدھ مت کے ماننے والوں، دَرویشوں اور فقیروں کے گورُو، اور بابا، نرِمان میں جن کے مذہب کا بنیادی نکتہ اپنے جذبات و خواہشات کو ختم کردینا ہوتا ہے، مصروف رہنے کے بعد ، اپنے مذہب کے اصول و ضوابط اس طرح سے بنانے میں کامیاب ہوئے کہ بُدھ مت کے ماننے والے ”جو بولیں اُس سے کسی کا نقصان نہ ہو، کوئی ایسی حرکت نہ کرے، جس سے بڑی بات یہ کہ بُدھ مت کے پیروکار جھوٹ کے قریب نہیں پھٹکیں گے، بلکہ ہمیشہ سچ بولیں گے، مہاتما بُدھ نے بطورِ خاص جو بات زور دیکر کہی اور جو بات کسی اور مذہب میں نہیں وہ یہ ہے کہ بُدھ مَت والے کسی بھی جاندار کو کسی قیمت پہ نہیں ماریں گے، انسان تو بہت دُورکی بات ہے، وہ سانپ خواہ کتنا ہی خطرناک اور زہریلا کیوں نہ ہو کسی قیمت پہ نہیں مار سکتے ، اور نہ ہی کسی حشرات الارض حتیٰ کہ مچھر اور مکھی کو بھی نہیں مارسکتے۔ہزاروں سال سے اپنے مہاتما کی باتوں پر عمل کرنیوالے، اور اُنکے بُدھ بھکشو آخر اپنے مذہب کی تعلیمات کو ترک کرکے ”بُدھو“ کیوں بن گئے، حالانکہ بُدھ ازم تو برما کا سرکاری مذہب ہے، اور نوے فی صد برما میں اسی کے پیروکار ہیں، جبکہ مسلمان تقریباً سات لاکھ کے قریب تھے، 1828ءمیں برٹش حکومت میں بھی یہ مسلمان موجود تھے‘ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب 1982ءمیں برما نے برما پر حکومت کرنیوالے مسلمانوں پر عرصہِ حیات اس طرح سے تنگ کردیا کہ نہ صرف انہیں شہریت دینے سے انکار کردیا، بلکہ دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی روہنگیا کے مسلمانوں پر پابندی عائد کردی۔ تنگ آکر ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے تقلیدِ پیغمبر میں ہجرت کی ٹھانی، بَرما کے یہ مسلمان ماضی بعید میں بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے برما آباد ہوئے تھے، مگر صَد حیف کہ بھارتی کٹھ پتلی حسینہ واجد نے مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی سرزمین پر قبول کرنے سے ظالمانہ طریقے سے انکار کردیا، مگر نریندر مودی جیسے کٹر کافر کا والہانہ طریقے سے ہاتھ ملا کر استقبال کیا اور ستم ظریفی یہ کہ مودی جیسے ظالم اور مسلم دشمن حکمران نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے ، انکے گھروں کو خاکستر کرنے میں دریغ نہیں کیا، عفت مآب خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرنیکی کھلی اجازت دے رکھی ہے، اُور اُن کے حقِ خودارادیت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں مگر حسینہ واجد اور مودی نے دونوں ملکوں کی چار ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر آباد بنگلہ دیش اور بھارت میں آباد بستیوں کے باشندوں، جن کی کسی ملک کی شہریت نہیں ہے، مُودی نے انہیں فی الفور یہ اختیار دیا ہے کہ وہ انتخاب کا حق استعمال کرکے اپنی مرضی سے کسی ایک ملک کے ساتھ شامل ہوجائیں....مگر یہ رعایت اور یہ قانون کشمیریوں کو دینے سے یکسر انکاری ہے۔ مگر حسینہ پہ کروڑوں ڈالر نچھاور کردئیے ، بات ہورہی تھی، رُوہنگیا کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کی، جو اپنے ہی ملک میں کمی کمین، اور مزارعے اور مَلاح بن کر رہنے پر مجبور کردئیے گئے ہیں، تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں نے اپنا ملک چھوڑنے سے انکار کردیا گیا، تو انہیں حکومت نے کیمپوں پر رہنے اور آئی ڈی پیز بن کر رہنے پر مجبور کردیا گیا، اور مسلمان INTERNALLY DISPLACED PERSONS بن کر رہ گئے ، ویسے بھی مسلمان نہ فون رکھتے ہیں، نہ پاسپورٹ رکھ سکتے ہیں، نہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، نہ جائیداد خرید سکتے ہیں نہ خریدو فروخت کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ شادی بھی نہیں کرسکتے، حیرت ہے دُنیا کی آدھی آبادی مسلمان ہے اور پینتالیس سے زیادہ مسلمان ملک ہیں، ترکی واحد ایسا ملک ہے جس نے ان مظلوم مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اُنکی حفاظت کیلئے فوج بھی بھیجی ہے اور طیب اردگان کی بیگم مظلوموں کی پذیرائی میںانکے کیمپ جاپہنچیں اور عورتوں کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں، مختصراً یہ کہ اس قبضے کا اصل سبب یہ ہے کہ 1940ءمیں برطانیہ کیخلاف جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو برما کے مسلمانوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، جب بدھ مت کو اس کا علم ہوا تو یہی انکا ناقابل معافی جرم بن گیا، رنگون تو پاکستان بننے سے پہلے بھی کالا پانی کے نام سے مشہور تھا، یہ مسئلہ صرف نیک دل ملک ریاض کے دس کروڑ کی امداد سے حل نہیں ہوگا اور نہ ہی میاں نوازشریف کی طرف سے کمیٹی قائم کرنے کا کوئی فائدہ ہوگا، کیونکہ ایک انسان کی حرمت، حرمت ِ کعبہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے، کعبے کی حفاظت کی یقین دہانی کیلئے اگر آرمی چیف اور نوازشریف، ریاض جا پہنچے تھے تو خدارا حرمت مسلمان کیلئے بھی اپنا یہ پیغام بار بار دیتے رہیں کہ مظلوم مسلمانوں پر ظلم سے یہ خطرہ ہے کہ مسلمان عسکریت پسند بھٹک سکتے ہیں جس سے دہشت گردی کے خلاف حالیہ کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، بفضلِ خدا اگر وزیراعظم دو ٹوک اور واضح انتباہ برما کو دیں تو یہ مسئلہ دنوں میں حل ہوسکتا ہے اور راحیل شریف بھی صرف ایک دن کے دورے پر بَرما چلے جائیں کیونکہ اب مہاتما کا ملک ، مہاطمع کا ملک بن چکا ہے۔

مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مَرد باید کہ ہراساں نہ شود!

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...