”غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا“

میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی آئینی مدت میں سے دو سال کا عرصہ مکمل کر چکی ہے۔ آج سے دو سال قبل موجودہ حکومت بھاری بھر مینڈیٹ کےساتھ اقتدار میں آئی سمجھا جاتا تھا کہ نواز شریف اس بات کا علم رکھتے ہونگے کہ آج کا پاکستان 90 کی دہائی کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ جب وہ دو مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم رہے۔ لہذا امید کی جاتی تھی کہ صاحب اپنے پرانے طرز عمل سے گریز کرتے ہوئے جمہوری طرز سیاست اختیار کرینگے اور اختیارات کا ارتکاز اپنی ذات میں کرنے کے بجائے اختیارات کی تقسیم کے فلسفہ پر کار بند ہو کر وفاق کی مضبوطی کےلئے کام کرینگے اور جمہوری نظام کو مستحکم کرینگے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف میاں صاحب کا جارحانہ انداز سیاست لوگوں میں یہ تاثر قائم کرنے کےلئے تھا کہ وہ ہی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی ختم کر کے اچھی حکومت قائم کر سکتے ہیں جو روشن اور خوشحال پاکستان بنائے گی۔ آج نواز حکومت کے دو سال کے بعد میاں صاحب کے دعوﺅں کو حقیقت کی کسوٹی میں پرکھنا آسان ہے جبکہ وہ اپنی حکومت کی تقریباً آدھی مدت مکمل کر چکے ہیں۔ جمہوریت کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کیلئے۔ان دو سالوں میں موجودہ حکومت نے ”عوام“ کے تاثر کو انتہائی مجروح کیا ہے اور اپنے بلند و بانگ دعوﺅں کے برعکس آج عوام اکثریت پہلے سے زیادہ اور مشکلات اور مصائب کا شکار ہے انتخابی مہم کے دوران میاں صاحب ہر جگہ یہ فرماتے تھے کہ میرے پاس مسائل کے حل کیلئے شاندار ٹیم اور بہترین پالیسیاں ہیں۔ لیکن آج تک عوام 1990ءاور 1997ءوالی ”کابینہ کہن“ اور گھسٹی پٹی پالیسیوں کے شکنجوں میں گرفتار ہیں۔ پروگرام 2010ءوالے احسن اقبال اس دفعہ 2025ءپروگرام کے ساتھ پھر کابینہ کا دماغ کہلاتے ہیں لیکن سکرپٹ اور پرنٹ وہی پرانے والا ہے۔ میاں صاحب سب سے زیادہ اپنی معاشی ٹیم کے پرچارک تھے لہذا اس دفعہ پھر میاں صاحب نے تقریباً چوتھی دفعہ جناب اسحق ڈار کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جو میاں صاحب کے کاروبار میں ان کا مشیر رہے اور میاں صاحب کے سمدھی بھی ہیں۔ موجودہ حکومت سرمایہ داروں اور بڑے کاروباری طبقہ کی ہمدرد حکومت سمجھی جاتی ہے۔ لہذا یہ ان پر براہ راست ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی عادی ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ کےلئے مراعات پر مبنی ہیں۔ جبکہ عام آدمی اور مفلوک الحال طبقات اسکی ترجیح نہ ہیں اس لئے تفاوت یعنی امیر اور غریب کے درمیان فرق آج پاکستان کی تاریخ میں عروج پر ہے اور درمیانہ طبقہ ختم ہو کر سفید پوش طبقہ بن چکا ہے۔ زراعت جو ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے آج بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔ کسان اور چھوٹے کاشتکار آج کی حکومت کو کسان دشمن حکومت گردانتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے اور بیرونی ممالک سے آنیوالی ترسیلات کے حجم میں اضافہ ہو جانے، نجی شعبے کے انتہائی نفع بخش اداروں کے حصص غیر ملکیوں کو فروخت کرنے یورو بانڈاز سکوک بانڈر کے اجزاءاور کچھ بیرونی عوامل کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے مگر حکومت اس صورتحال میں معیشت کو صحیح سمت دینے کی بجائے وسائل غیر ضروری اور نمائشی منصوبوں میں صرف کر رہی ہے۔ لوگوں کو سستی غذا، تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولت حکومت کی ترجیحات نہ ہیں بلکہ حکومت کا تیسرا بجٹ بھی غریب دشمن، سرکاری ملازمین مخالف اور مزدور کسان مفادات کیخلاف ہے۔پچھلے اور موجودہ مالی سال میں معیشت کی سرح نمو اور ٹیکسوں کی وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہوئے حالانکہ اس مدت میں منی بجٹ بھی آئے ہیں برآمدات نہ صرف گزشتہ برسوں سے کم بلکہ ہدف سے تقریباً دو ارب ڈالر کم ہیں۔موجودہ اور گزشتہ مالی سال میں جنوبی ایشیا کے 8 ممالک میں سے 7 ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کی شرح نمو سوائے افغانستان کے سب سے کم رہی۔ عالمی بنک کے مطابق 2016ءمیں بھی یہی صورتحال رہے گی۔ آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہم ترین معاشی اعشاریوں کے لحاظ سے پاکستانی معیشت کی کارکردگی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کم تر ہے مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی اور تعلیمی اخراجات دنیا کے بیشتر ممالک سے کم ہیں۔ اپنی انتخابی تقریوں میں ”اغیار“ کی مدد سے انکار کرنیوالے آج آئی ایم ایف کی نئی قرضوں کی قسط پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے مبارک سلامت کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ میاں صاحبان کا 2008ءسے 2013ءتک پسندیدہ موضوع سخن تھا میاں شہباز صاحب عوام کے درد میں مینار پاکستان میں کیمپ لگا کر اور پنجاب حکومت کے وسائل کے بل بوتے پر مرکزی حکومت کیخلاف پر تشدد مظاہروں اور گھیراﺅ جلاﺅ کرواتے رہے انتخابی تقریروں میں دعوے کرتے رہے کہ اگر تین مہینے لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا مگر آج بدترین لوڈشیڈنگ پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اب بڑی ڈھٹائی سے 2018ءمیں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دبہ دبہ سا اعلان کرتے ہیں کیا عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے اور جھوٹے وعدے کرنے پر ان پر کوئی اخلاقی تقاضہ لاگو نہیں ہوتا آج بھی اس حکومت کا بجلی کے منصوبوں میں غیر سنجیدہ رویہ اور نندی پور جیسے منصوبوں میں 18 ارب کا ڈاکہ ان کی پاور پالیسی کو ظاہر کرتا ہے کبھی کوئلے سے بجلی بنانے اور کبھی سولر منصوبوں کے نام پر اربوں روپے کی کمیشن کھانے والا کمشن مافیہ ناکام منصوبے بنا کر ملک کا سرمایہ ضائع کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے دو سال مسلسل ناکامیوں اور نا اہلیوں کی ایسی داستان ہے جس کو چھپانے کےلئے ملکی خزانے سے اربوں روپے کے اشتہار دیئے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی نا اہلیوں کے باعث طاقت کا توازن جمہوری اور سول اداروں کی بجائے سکیورٹی اداروں کے حق میں تبدیل کر کے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جمہور آج ان حکمرانوں سے انکے جھوٹے وعدوں پر نالاں ہیں ....
”غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا“

ای پیپر دی نیشن