معاشرے میں اعتدال کا فقدان ہے ۔ خصوصی طور پر علماء اکرام بھی جوش اور جذبے کی رو میں بہہ کر اعتدال کا دامن چھوڑ دیتے ہیں ۔مدارس میں صرف تعلیم دی جاتی ہے لیکن اعتدال کی تربیت نہیں دی جاتی ۔حکومتی سطح پر محکمہ اوقاف نے علماء کی تربیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسی بناء آج تک اوقاف کے زیر انتظام کسی مسجد اور مدرسے میں کوئی لڑائی جھگڑے کا واقعہ سامنے نہیں آیا ۔اگر مدارس سے سند فراغت حاصل کرنے والے علماء کی محکمہ اوقاف کے تحت علماء اکیڈمی میں تربیت کو یقینی بنایا جائے تو حکومت کو محرم الحرام اور ربیع الاول میں کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات نافذ کرنیکی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔
علماء کی تربیت کے لیے 1970ء میںعلماء اکیڈمی کی بنیاد رکھی گی ۔تب مدرسہ اور مکتب پر انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے سائے نہیں پڑے تھے اور نہ ہی ہمارے تدریسی نظام اور محراب و منبر کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی طرف سے یہ ’’تحفظات‘‘ سامنے آئے تھے۔ دینی درسیات کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بحث بھی ابھی شروع نہ ہوئی تھی اورنہ ہی دینی مدارس کو ’’قومی دھارے‘‘ میں لانے اور اس کی ضابطہ بندی کی طرف کوئی دھیان گیا تھا۔ لیکن آج سے 46سال پہلے ان تمام اہداف اور قومی ضروریات اور آئندہ دور کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے، حکیم مشرق حضرت اقبال کے پہلو اور تاریخی شاہی قلعہ سے متصل یہ ’’علماء اکیڈیمی‘‘ قائم ہوئی، علماء اکیڈیمی کے قیام کے مقاصد حسب ذیل تھے:
1۔ مسجد کو مرکز ملت اور امام و خطیب کو رہنماء ملت بنانے کے لئے ائمہ اور خطبا میں اسلامی علوم کی مہارت پیدا کرنا اور انہیں جدید معاشرتی و سائنسی علوم سے متعارف کرانا تاکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں، ملک و قوم کی بہتر رہنمائی کرسکیں اور معاشرے کو اسلامی، روحانی اور اخلاقی اقدار پر تشکیل دینے میں صحیح طور پر مدد گار ثابت ہوسکیں۔2۔تقابل ادیان، تقابل قوانین اور تقابل نظریات کا اہتمام کرنا، تاکہ ائمہ و خطباء اس تقابل میں اسلام کی حقانیت، عظمت اور فوقیت، علمی اور تحقیقی طور پر ثابت کرسکیں۔3۔ مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب نیز یورپی اقوام کی ترقی کے عوامل اور ان کے مسلمانوں کی معاشرت، معیشت، سیاست، تعلیم، تہذیب، قانون اور عدالت پر اثرات کا مطالعہ اور تجزیہ۔4۔ مغربی مفکرین کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں آراء اور مآخذ اسلامیہ کی روشنی میں ان کا تجزیہ، نیز یورپ، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ضروریات و اہمیت کا جائزہ۔5۔ دورہ حاضر میں عالم اسلامی کی علمی، فکری اور سیاسی تاریخ، مسلم ممالک کے اتحاد و اختلاف کا علمی تجزیہ اور مساعی، اتحاد عالم اسلامی کا مطالعہ۔6۔ پاکستان کا تاریخی پس منظر، پیش آمدہ معاشرتی، تہذیبی، تعلیمی ، عدالتی، قانونی، اقتصادی اور سیاسی مسائل اور ان کا قرآن و سنت کی روشن میں علمی و تحقیقی مطالعہ۔7۔ پاکستان میں مذہبی، علاقائی اور لسانی اختلافات کا تاریخی پس منظر اور ان کے نقصانات، اتحاد و اتفاق کے برکات وفوائد، معاشرتی، ثقافتی اور ادبی وسعت و تنوع کی تحسین اور کثرت میں وحدت کی وضاحت۔8 تصنیف و تحقیق کی تربیت کا اہتمام کرنا تاکہ ائمہ و خطبا ء و عظ و خطبہ کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے ذریعے لٹریچر کے اس دور میں دین اسلام کی زیادہ موثر انداز میں خدمت کرسکیں۔
ذرا پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ قومی سطح پر ہمارے دینی اور مذہبی اداروں اور انکے فارغ التحصیل طلبہ کی ضروریات کا ادراک تو بروقت کرلیا گیا تھا، مگر افسوس ایسے اداروں کی ترویج و ترقی، ہمارے قومی زندگی میں ترجیحی نوعیت حاصل نہ کر سکی۔ بایں وجہ ان ا لمیوں کا تدارک نہ ہوسکا جس سے آج ہماری سوسائٹی دوچار ہے۔ اس کے باوجود علماء اکیڈیمی محکمہ اوقاف کی نگرانی میں اپنے علمی اور فکری سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔سیکرٹری اوقاف نیر اقبال اور ڈی جی اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے اس اکیڈمی کو مزید فعال کیا ہے ۔ حکومت پنجاب مدارس سے سند فراغت حاصل کرنے والے طلباء کے لیے اگر علماء اکیڈمی میں کورس لازمی قرار دے دے تو فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔اس طرح کی ایک اور کوشش اتحادِ امت اسلامک سنٹر کے قیام ہے لاہور میں ماڈرن دینی ادارے کی کمی تھی جوپوری ہوگی اس مرکز سے زندہ دلان ِلاہور فیض یاب ہوں گے۔اتحادِ امت اسلامک سنٹر کے نام میں ہی خیر کا پہلو نمایاں ہے۔ کیونکہ اس وقت امت کے اتحاد کی بے حد ضرورت ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ اتحادِ امت اسلامک سنٹر کا نام فرقہ واریت کی نفی کررہا ہے اتحادِ امت اسلامک سنٹر کی تعمیر و تشکیل کا عزم خوش آئند ہے۔ ہم نیکی کے اس کام میں محمد ضیاء الحق نقشبندی کے ساتھ ہیں۔ سنٹر میں فلاحی و رفاہی شعبہ قائم کرنے کا اعلان قابل تحسین ہے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو مساجد و مدارس کی تعمیر کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور گمراہی و جہالت کے اندھیروں کو اجالوں میں بدلنے کیلئے زیادہ سے زیادہ دینی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اتحادِ امت اسلامک سنٹر یقینا رشدو ہدایت کا ایک عظیم مرکز اور دینی جدوجہد کا مضبوط قلعہ بنے گا۔ لاہور میں ایسے مرکز کی اشد ضرورت تھی، داتاکی نگری میں جامع مسجد الحسن اور اتحادِ امت اسلامک سنٹر کی تعمیر سے تنظیمی، تبلیغی، تحقیقی، تعلیمی،روحانی اور فلاحی کاموں کیلئے ایک مضبوط اور موثر مرکز قائم ہوگا۔ جس کے ذریعے ہر وہ کام ہوگا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ ماڈرن دینی اداروں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔علماء اکیڈمی کے بعد اس ادارے کا قیام معاشرے میں مثبت سمت کی طرف ایک احسن قدم ہے اتحادِ امت اسلامک سنٹر کی پانچ منزلہ بلڈنگ پانچ سال میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر ہواہے۔ اس سنٹر میں کلاس رومز، سیمینار ہال، دفاتر، لائبریری، سپورٹس ہال، کافی شاپ، شادی ہال، آڈیٹوریم ،خواتین ہال ،رہائشی بلاک تعمیر ہوگا۔اس سنٹر میں درسِ نظامی، تحقیق، تراجم، اسلامک بینکنگ کورس، رفاہِ عامہ، ادب، صحافت، آئی ٹی، فتویٰ آن لائن، خطاطی کے علاوہ خواتین اور بچوں کے شعبے بنیں گے۔ یہ سنٹر بکھری امت کو متحد کرکے ناقابل تسخیر طاقت بنائے گااور اتحادِ امت اسلامک سنٹر کو عالمی اسلامی تحریکوں کے درمیان رابطے کا مضبوط و موثر مرکز بنے گا