آجکل ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے غیر ملکی دورے عروج پر ہیں۔ بظاہر اقتصادی نوعیت کے ان دوروں میں ہر جگہ تجارت اور سرمایہ کاری پر معاہدوں کی بھرمار ہے مگر اصل مقصد اس علاقے میں امریکہ کا فرنٹ مین ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے آزادی سے لیکر آج تک ہمارے خلاف سازشیں کرنے اور ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ انکی ہر حرکت پر نظر رکھنا ہماری مجبوری اور اسکا کاونٹر ایکشن پلان تیار کرنا تو ہماری بقاء کیلئے لازم ہے مگر انکی چھوٹی موٹی کامیابیوں کو بڑا بناکر ہموطنوں کے سامنے پیش کرنا درست نہیں۔ کئی سالوں سے ہم پر جو نفسیاتی یلغار جاری ہے اس میں یہ رویہ دشمن کو فائدہ دے جاتا ہے۔مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جاتا ہے جس کیلئے آج تک کسی پاکستانی کو اہل نہیں سمجھا گیا، ایران سے سمجھوتے اور چاہ بہار بندرگاہ کی ڈیویلپمنٹ، افغانستان، خلیجی ریاستوں اور یورپ میں پذیرائی، ایسے واقعات ہیں جن سے کچھ اہل وطن متفکر نظر آتے ہیں۔ انکے خیال میں انڈیا پاکستان کو دنیا میں تنہا کرکے ہمارے گرد گھیرا تنگ کررہا ہے۔فوج میں دشمن کے ارادے اور ہتھیاروں کا جائزہ لیتے وقت اسے حقیقت سے تھوڑی زیادہ صلاحیت دیکر ردعمل تیار کیا جاتا ہے تاکہ اپنی کامیابی یقینی ہو۔ اسی اصول کے تحت اگر ہم پچھلے ڈیڑھ عشرے کی دونوں ملکیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کریں تونتیجہ کچھ اسطرح کا نظر آتا ہے۔
صدی کے شروع ہوتے ہی افغانستان اور عراق پر جس طرح کی یلغار ہوئی وہ بلاشبہ اکلوتی سپرپاور کا اسلامی ممالک کی طاقت کو کچلنے اور اپنا دست نگر بنانے کے عمل کا آغاز تھا۔ میں نے اپنی کتاب انقلاب پاکستان میں لکھا تھا کہ اس صدی میں امریکی جنگی ڈاکٹرائن تین لفظوں پر مشتمل رہیگی ’’تباہی، محتاجی، تعمیر نو‘‘ بدقسمتی سے مسلمان ممالک نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسے روکنے کی کوئی سعی نہ کی جبکہ انڈیا نے موقع کی نزاکت کو بھانپ لیا اور جس وقت تک ہم جنگ کی لپیٹ میں آتے، انڈیا افغانستان میں امریکی چھتری کے نیچے قدم جماچکا تھا۔
پھرایک عشرہ تک ہمارا خون بہتا رہا اور انڈیا اس علاقے کا سرخیل بننے کا خواب دیکھنے لگا۔ امریکی صدر اوباما نے 2010ء میں اپنے دورہ بھارت کے دوران انڈین نیوی کیلئے 10ارب ڈالر دیئے تاکہ اسے بحرِہند اور بحرئہ عرب پر کنٹرول قائم کرنے میں مدد مل جائے۔ اسکے بعد امریکہ نے جب افغانستان سے نکلنے کا عندیہ دیا تو ہندوستان کی ٹوپی میں چارپَر لگادیئے۔ (1) امریکی سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر ریجنل کنٹرول اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے امریکی عمل کو سپورٹ کرنا۔ (2) علاقے میں سکیورٹی کوارڈینیٹر کے طور پر کام کرنا جس کا مطلب ہماری طاقت پر بھی بالواسطہ برتری تھا اور جو انکا ایک دیرنیہ خواب ہیٹھہرا۔ (3) افغانستان میں افغان نیشنل آرمی (ANA)کو تیار کرنا جو امریکہ کے بعد حالات سنبھال سکے۔ (4) ریجن میں سرحدیں نرم کرکے اقتصادی ترقی کو بڑھانا جس میں سرفہرست ہمارے سینے کو چیرتی ہوئی واہگہ سے کابل تک راہداری تھی۔
کیا ہم نے اسے کسی ایک چیز میں بھی کامیاب ہونے دیا؟ افغانستان کا گاڈ فادر بننے کا شوق رکھنے والے بھارت کا ذکر بھی اب افغانستان کے معاملات کیلئے بننے والی چار ملکی کانفرنس میں نہیں آتا۔ اسکی افغانستان میں ناکامی کے ساتھ ہی ہم نے چین کو بحیرہ عرب تک پہنچا دیا۔ ادھر چین سری لنکا سے بھی اڈے لے رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اور چین کو گھیرنے کی بجائے ہندوستان کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ہے۔ چاہ بہار تو صرف اسکی نیویگیشن اور ٹریڈروٹ کی ایک حفاظتی چوکی ہے۔کیا امریکہ اس علاقے میں کوئی نئی جنگ کھول کر اپنے سٹریٹیجک پارٹنر انڈیا کی مدد کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اسوقت پوری دنیا کا فوکس بحیرئہ عرب کے ساحلوں پر ہے جو یہ بھی جانتے ہیں کہ اس نقطے کے گرد پونے پانچ ایٹمی طاقتیں بیٹھی ہیں یعنی پاکستان ، چین، روس، انڈیا اور ایران۔ اب امریکہ اور یورپ اس علاقے میں سٹریٹیجک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خواہاں ہونگے۔ دبائو ہوا بھیتو خطرناک نہیں ہوگا۔ آئندہ وہ ہمارے ملک میں سوفٹ ایریاز یعنی ٹریڈ ، تعلیم، صحت، انسانی و نسوانی حقوق وغیرہ کے ذریعے اپنا اثرورسوخ رکھنا چاہیں گے۔
ہمارے وطن پاکستان پر اللہ کی خاص رحمت ہے۔ پاکستانی خطا کار تو ہوسکتے ہیں مگر وطن سے عشق میں کوئی کم نظر نہیں آتا۔ کیا انڈین ودیگر پریشان نہیں ہوتے ہونگے کہ جس طرح کی جنگ میں کئی عرب ممالک تھوڑے ہی عرصے میں ریت کے گھروندوں کی طرح بیٹھ گئے، پاکستانی اسی طرح کی اتنی لمبی جنگ لڑنے اور ہزاروں جانیں قربان کرنے کے بعد بھی باہمت ، ثابت قدم، پہلے سے زیادہ پر اعتماد اور مضبوط نظر آتے ہیں۔
جن ممالک میں مودی کی سپیشل پذیرائی ہورہی ہے وہ سب امریکی چھتری والے ملک ہیں لہٰذا اس میں ہندوستان کا کوئی خاص کمال نہیں۔ امریکہ انڈیا کو سب میرین بناکر دے، ایٹمی ری ایکٹر لگا کردے، نیوکلیر سپلائر گروپ کی ممبر شپ کیلئے سپورٹ کرے یا اور کچھ بھی۔ انہیں اندازہ ہوگا کہ نہ تو بھارت ہم سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور نہ ہی وہ چین سے ٹریڈ ختم کرکے امریکی جھولی میں جابیٹھے گا۔ چین کے پاس انڈیا کیلئے گاجر اور ڈنڈا دونوں ہیں لہٰذا انڈیا اپنا اصل رنگ امریکہ سے بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد دکھائے گا۔
ان حقائق کی روشنی میں اس خطے اور خصوصاً پاکستان میں آئندہ 5/7سال تک ہمیں دہشتگردی اور پرامن ترقی کے ملے جلے ماحول کا سامنا کرنا نظر آتا ہے۔ CPECکو انڈیا امریکی پشت پناہی سے متواتر سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا رہے گا جس کیلئے بہترین ہتھیار دہشتگردی اور بہترین ماحول ہماے اندر غیرمتوازن صورتحال کا پیدا کیا جانا ہے۔ بلوچستان میں اسی کو ریڈور کے علاقے میں امریکی ڈرون حملہ بھی ایک پیغام ہے جسے اچھی طرح پڑھ لیا گیا ہے۔GHQ میں حالیہ سول ملٹری مشترکہ میٹنگ میں اس پر ہر پہلو سے بحث ہوئی جبکہ اس سے پہلے آرمی چیف امریکہ کو قومی جذبات کے مطابق کھلے الفاظ میں وارننگ دے چکے ہیں۔ہمیں تمام سیاسی و گروہی اختلافات سے بالاتر ہوکر قومی یکجہتی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہر وقت قوم کو کوسنے دیکر مایوسی چھیلانے کے رویے کو ختم کردینا چاہیے جو کہ تبصرے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ فوج کو بھی بے شک زیر بحث لایا جائے مگر جسطرح اچھی قومیں صرف مدبر اور عسکری معاملات کا علم رکھنے والوں کو ہی فوج پر زبان کھولنے کی اجازت دیتی ہیں۔ تحفظ عامہ اور پبلک اٹیلیجنس نیٹ ورک کو تدبر کے ساتھ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ جن پر پبلک اور حکومت بالکل توجہ نہیں دے رہی۔
ہم نے بھارت کی علاقائی برتری کے خواب چکنا چور کردیئے، افغانستان میں ناکام کیا،’’ر‘‘ کے نیٹ ورک تباہ کردیئے، چین کو اسکی دہلیز پر لابٹھایا، امریکہ کی دھونس کا زور توڑ دیا اور سالہا سال کی جنگ کے بعد بھارت سے کہیں بہتر فوج کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ افغانستان، ایران، خلیجی ممالک، سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات خراب نہیں لہٰذا مودی جہاں چاہے دوڑتا پھرے۔