اگر چہ اسلامی تعلیمات کا اصل فلسفہ روحانی اصلاح ہے لیکن تعلیمات کی تعمیل میں انسانی جسم کی بہتری اورصحت مندی کا بھی بہت ساسامان موجود ہے روزہ بھی اپنے جلو میں انسانی صحت کا ایک عظیم عنصر رکھتا ہے ۔ معدہ کا خالی رہنا بہت سے امراض کا علاج ہے اطباء بہت سے مریضوں کا فاقہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
پورا مہینہ فاقہ کرنے سا معدہ سے سال بھر کے جمع شدہ فاسد مادے ختم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ سحری اورافطاری میں حداعتدال سے تجاوز نہ کیاجائے اسی لیے فرمایا گیا صومواتصحوا۔’’روزہ رکھو صحت مندہوجائو گے۔‘‘
روزہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورجلال کو عملی طورپر تسلیم کرنے اورشکر ایزدی بجالانے کانام ہے قرآن مجید میں روزے کی اس حکمت کی طر ف یوں اشارہ گیا’’اورتاکہ اللہ نے تمہیں جو ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کر واوراسی لیے کہ تم اس کے شکر گزار بنو‘‘۔(البقرۃ)
اللہ تعالیٰ کی کبریائی اوراس کی عظمت وشوکت کا بیان زبان سے بھی ہوسکتا ہے لیکن روزہ دار کے وجود کا ہر ہر تار عملاًاللہ تعالیٰ کی کبریائی کے حضور سجدہ ریز ہوجاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا روزہ رکھنے کا حکم پہنچاتو اس نے اللہ کے جلال کے حضور سرتسلیم خم کردیا ۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک کمرے میں اکیلا تھا ۔سخت پیاسا تھا،ٹھنڈ ا پانی پاس موجود تھا اس نے پانی کو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں محض اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سجدہ ریز ہوچکا تھا ۔کاش جلال الٰہی کا یہ شعور پورا سال اس پے حکمران رہتا ۔ایسے ہی روزہ شکر الٰہی بجالانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ عاشورہ کے روزہ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان میں سے ایک عاشورہ کے دن کا روزہ ہے اس کے مشروع ہونے کا راز یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون اوراس کی قوم کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مددکی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھ کر شکر اداکیا۔ پھر اہل کتاب اورعربوں میں یہ روزہ مسنون ہوگیا آخر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔(حجۃالبالغہ)
رمضان المبارک میں فلاح دارین کا امین قرآن مجید نازل ہوااوراللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کا نزول اسی ماہ مقدس میں ہوا۔ روزہ دار ان نعمتوں پر شکر الٰہی کے گن گاتے ہوئے روزہ رکھتا ہے۔
٭…٭…٭