شیخ رشید پر حملہ چودھری نثار کا امتحان

برادرم شیخ رشید اور ملک نور نامی شخص کا جھگڑا سیاسی مروت اور برداشت نہ کرنے کی صلاحیت کے خلاف ہے۔ ایک معروف بے باک ممبر قومی اسمبلی اور کئی مرتبہ وزیر رہنے والے شخص کے خلاف اس سے پہلے کوئی ایسی واردات نہیں ہوئی۔ یہ واقعہ قومی اسمبلی کے دروازے پر کیوں ہوا۔ یہ بات حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے شرمناک اور خطرناک ہے۔
چودھری شجاعت نے بہت بڑی بات کی ہے کہ شیخ رشید پر حملہ تمام پارلیمنٹیرنز کے لئے ایک پیغام ہے۔ اس پیغام میں دھمکی بھی ہے۔ ایسے واقعات ن لیگ والوں کی پرانی عادت ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نواز شریف لیگ والوں کی پرانی روایت ہے جسے بار بار حکایت بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پیغام صرف شیخ رشید کے لئے ہے۔ کسی اور ممبر اسمبلی سے نواز شریف اتنے تنگ نہیں ہیں۔
نواز شریف کے پاس نہال ہاشمی جیسے کئی لوگ ہیں جو بات کرتے ہیں پھر اس پر کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نہال ہاشمی کو توہین آمیز بڑھکیں لگانے کی کتنی سزا ملتی ہے یا اس پر بھی کوئی سیاست چل جاتی ہے۔ نہال ہاشمی کا جو حال اب ہے وہ عدالت سے معافی مانگ لیں گے اور عدالت معاف کر دے گی۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک آدمی قابل اعتراض بات کرتا ہے اور پھر معافی مانگ لیتا ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ عدالت کو اپنا وقار عزت اور خود مختاری قائم رکھنا چاہئے۔
شاہی سید نے بڑی مزیدار بات کی ہے ’’نہال ہاشمی کا نشہ اترے گا تو پتہ چل جائے گا کہ دھکا کس نے دیا تھا۔‘‘ جو فلم چل رہی ہے تو معاملہ وزیراعظم کی طرف جاتا ہے۔
شیخ رشید پر یہ حملہ پارلیمنٹ کے باہر نہیں کروانا چاہئے تھا۔ اس طرح پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو نقصان پہنچا ہے اور اب سیاسی فیصلے بھی پارلیمنٹ کے باہر ہوں گے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ میں ملک نور نامی شخص کو جانتا بھی نہیں۔ یہ 22 لاکھ کی بات ہے۔ شیخ صاحب چاہیں تو 22کروڑ بھی بہت آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت کوئی ممبر اسمبلی شیخ رشید سے زیادہ فعال اور متحرک نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر تو وہی ہے اور عمران خان ہیں نجانے خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کس نے بنا دیا ہے۔ مگر کبھی کبھی وہ بھی کڑاکے دار بات کرتے ہیں۔ انہیں شیخ رشید پر حملے کے حوالے سے زبردست بات کرنا چاہئے یہ امتحان چودھری نثار کا بھی ہے۔ اس واقعے کے بارے میں سخت ایکشن لیا جائے ورنہ پارلیمنٹ کی ساکھ راکھ میں مل جائے گی۔
اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ کل کسی سرکار ممبر اسمبلی کے خلاف بھی اس طرح کا واقعہ ہو سکتا ہے۔ اس واقعے کو سختی سے انجام تک نہ پہنچایا گیا تو پھر ایسے کئی واقعات ہوں گے۔ عمران خان اگر سڑکوں پر آئے تو پھر فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔
سیاست کے اس طریق کار کو سنبھالنے کا یہی طریقہ ہے کہ شیخ رشید پر حملے کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ تو چودھری نثار نے اچھا کیا ہے کہ ملک نور کو فوری طور پر گرفتار کرا دیا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ اس کیس کو فوری طور پر نبٹایا جائے۔ یہ سب پارلیمنٹیرینز کی عزت کا معاملہ ہے۔ کل کو کوئی آدمی پارلیمنٹ کے اندر بھی گھس جائے گا۔
بات قرض کی واپسی کے مطالبے کی تھی تو اس کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ایک آدمی کسی ممبر قومی اسمبلی کے گریبان پر ہاتھ ڈالے اور پارلیمنٹ کے دروازے پر کارروائی کرے جسے سب پاکستانیوں اور باہر کی دنیا والوں نے بھی دیکھا۔ یہ واقعہ کہیں اور ہوتا تو اسے ایسی ’’پذیرائی‘‘ نہیں ملتی۔
شیخ رشید نے ایک سرگرم اور متنازعہ آدمی ہوتے ہوئے اپنے لئے حفاظتی انتظام کیوں نہیں کیا۔ اگر خدانخواستہ وہ آدمی شیخ صاحب سے لڑ پڑتا تو شیخ صاحب کو ہی مار پڑنا تھی۔ یہ بہت شرمناک واقعہ ہوتا۔ ملک نور سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنی پرانی بات کو نئی بات بنانے کا کیا یہی موقع تھا۔ بہرحال یہ غیر سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ چونکہ شیخ رشید کے متعلق ہے۔ اس لئے یہ جلدی اور کسی نتیجے کے بغیر ختم نہیں ہو گا۔
شیخ رشید اور پرویز رشید دونوں گارڈن کالج راولپنڈی میں میرے سٹوڈنٹ تھے۔ پرویز رشید کو کابینہ سے یوں نکال دیا گیا جیسے دودھ میں سے بال نکال دیا جاتا ہے۔ اب شیخ رشید پر باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت حملہ کروایا گیا۔ پرویز رشید بیچارہ تو خاموشی سے بیٹھ گیا مگر شیخ رشید چپ کرکے نہیں بیٹھے گا۔
ملک نور کوئی عام آدمی نہیں ہے اس کی صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چودھری نثار اور کئی سرکاری سیاستدانوں اور نواز شریف کے خاص آدمیوں کے ساتھ تصویریں ہیں مگر جو تصویر شیخ رشید کے ساتھ اس کی بنی ہے وہ یادگار تصویر ہے۔ اس سے سرکاری لوگ بہت خوش ہوں گے۔ ان لوگوں اور بالخصوص ملک نور کو یہ تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں لگانا چاہئے۔
ملک نور صدر جاپان مسلم لیگ ن یعنی نواز شریف ہیں۔ وہ جاپان جانے والے ہر سیاستدان کی خدمت کرتا ہے اور پھر اسے ذلیل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ کیا اتنے زیادہ عرصے میں صرف رشید ہی جاپان گئے تھے؟ دوسرے ایسے سیاسی لوگ احتیاط کریں۔ شیخ صاحب نے واضح طور پر کھلم کھلا نواز شریف کا نام لے کر الزام لگا دیا ہے کہ یہ سیاسی انتقام کی واردات ہے۔ عمران خان نے بھی ایسی ہی بات کی ہے۔
جب آدمی میدان میں ہوتا ہے تو اسے اپنے آپ کو بچانا بھی ہوتا ہے۔ مجھے عظیم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے گلہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچا نہ سکے۔ نواز شریف اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے اور مرشد و محبوب مجید نظامی کے بقول وہ سعودی عرب کے سرور محل میں سرور لیتے رہے۔ شیخ صاحب! اپنا خیال رکھیں۔ ابھی ایسے اور بھی واقعات ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...