جدید ریاست کا تصور خودمختار عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ المیہ رہا ہے کہ جس سیاسی کلچر کو پنپنے کا موقع ملا، اس میں اداروں سے تصادم کے ساتھ ساتھ دھونس ، دھاندلی، جبر اور ایک دوسرے پر الزامات کا کلچر تھا، جو اب ناسور کی طرح پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاسی ادارے اور سیاسی روایات کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک خودمختار عدلیہ ہی، انتظامیہ اور سیاستدانوں کی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے، لیکن حالات جب اِس ڈگر پر آجائیں کہ اداروں میں کشیدگی کی سی صورتحال پیدا ہوجائے تو یقینا اس کے پیچھے پستی کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور وہ تاریخ یہ ہے کہ ہم نے صحت مند جمہوری رجحانات کی بجائے اپنے ہاں آمرانہ رجحانات کو پنپنے دیا اور اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ انیسویں صدی میں جب یورپ میں جبر استبداد اور دھونس پر مبنی معاشرہ قائم ہوا اور انسان کا ضمیر ارزاں ہوگیا تو جدیداشتراکیت کے بانی کارل مارکس نے اس سوال پر غور کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایک مثالی معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار پر ”پرولتاریہ“ کا قبضہ ہو جائے کیونکہ ایک غریب ہی اپنے بھائی کے دکھ درد کو سمجھ سکتا ہے۔ لہٰذا وہی اس کا مداوا کرسکتا ہے۔ یورپ میں ایڈولف ہٹلر نے انسانی نسلوں سے برتر ہونے کی وجہ سے حکمرانی کا اصل حق دار جرمن نسل کو قرار دیا۔ اس سوال پر انیسویں صدی میں کافی بحث ہوئی اور تاریخی تجربات کی روشنی میں یہ فیصلہ ہوا کہ بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ عوام پر کس طبقے، گروہ یا ادارے کی حکومت ہونی چاہئے۔ بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ اداروں کو کس طرح مستحکم ہونا چاہئے۔ جہاں اداروں کی کارکردگی میں رخنے نہ ڈالے جائیں اور تمام ادارے فعال حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ہم اسی سوال میں الجھے ہوئے ہیں کہ حکومت کا اختیار کس کو ہے؟ تاہم اداروں کی فعالیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اداروں کا تصادم اندلس، بغداد اور نہ جانے کون کون سی حکومتوں کو لے ڈوبا۔ بھارت جہاں جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنے کی روایت موجود نہیں ہے۔ آج بھی متوسط طبقے کے افراد انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اہل ثروت زر اور طاقت کے استعمال سے کامیاب ہوتے ہیں۔ غریب آدمی تو انتخابات میں شمولیت کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اک تصور تو یہ بھی ابھرتا ہے کہ ہمیں ایسے صالح اور نیک حکمران کی ضرورت ہے جو جادو کی چھڑی سے معاملات کو درست کردے۔ حالانکہ ایک واضح حقیقت یہ ہے کہ جب سیاسی ادارے مضبوط اور سیاسی روایات پختہ ہو جاتی ہیں تو دریائے راوی کے کنارے ایک بکری بھی پیاسی مر جائے تو حکمران اس کی جوابدہی کے لئے تیار نظر آتا ہے کیونکہ معاشرتی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکا ہوتا ہے۔ لیکن جب اداروں کا احترام ، وقار مجروح کیا جانے لگے تو یقینا یہ اس معاشرے کی سالمیت پر قاری ضرب ہوتاہے۔ معاملات کی درستگی قطعاً اس طریقے سے ممکن نہیں کہ حکمران یا وزیراعظم کو خلیفہ کہنا شروع کردیں تو حالات درست ہوجائیں گے بلکہ حالات کی درستگی کی طرف ایک مفکر کنفیوشس نے یوں اشارہ کیا ہے کہ اگر حکمران چاہتے ہیں کہ معاملات درستگی کی طرف آئیں تو سب سے پہلے وہ اپنے دلوں کو درست کرتے ہیں اور اُن کے دلوں کی درستگی کے ساتھ یہی سیاسی روایات درست سمت اختیار کرتے ہوئے معاشرے کو استحکام کی طرف لے جاتی ہیں۔