جمعہ کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے کارروائی کا بائیکاٹ تو نہیں کیا لیکن وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحق ڈار شیڈول کے مطابق قومی بجٹ پر بحث کو سمیٹ سکے اب وہ بجٹ پر بحث کو پیر کو سمیٹیں گے اگر پیر کو صرف وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور ہی بحث کو سمیٹ سکے تو پھر منگل سے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک کو ’’ٹیک اپ‘‘ کیا جائے گا اس دوران حکومتی ارکان کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب حسین کو ٹاسک دیا گیا ہے حکومت کسی طور پر بھی کورم ٹوٹنے کی ’’عیاشی‘‘ کی متحمل نہیں ہو سکتی ہر قیمت پر حکومتی ارکان کو ایوان میں اپنی عددی اکثریت برقرارکھنے کا پا بند بنایا جا رہا ہے بہر حال بجٹ کی منظوری کے مراحل تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں ، جمعہ کو ایجنڈا کے تحت بجٹ اجلاس کی کاروائی نہ ہوسکی ، جس کے باعث بجٹ اجلاس میں توسیع کا امکان ہے ،کٹوتی کی تحریکوں سے متعلق ایجنڈے کی بھی تیاری شروع کردی گئی ہے ۔ بجٹ کی منظوری کے مراحل سے متعلق ایجنڈے کے مطابق جمعہ کو ایوان میں سینیٹ کی طرف سے بجٹ پر بجھوائی گئی 274سفارشات پر بحث کرائی جانی تھی، لیکن بحث ہوئی اور نہ ہی وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحقٰ ڈار نے قومی بجٹ2017-18پر بحث ب سمیٹ سکے ،یہ کاروائی پیر تک موخر ہوگئی ہے ۔بجٹ2017-18سے متعلق اہم امور کی منظوری کیلئے تین روزہ ایجنڈا تیار کیا ہے جس کے سینیٹ سفارشات پر بحث ، وزیرخزانہ کی بجٹ پر بحث سمیٹنے ، 30جون 2018کو ختم ہونے والے مالی سال کی بابت مطالبات زر اورغیر تصویبی اخراجات پر بحث ہونا ہے اب بجٹ کی منظوری 13جون کی بجائے 14جون کو ہو گی ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اڑھائی ہزار سے زائد کٹوتی کی تحریکیں جمع ک رکھی ہیں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر عوامی مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان مسلم لیگ جاپان کے صدر ملک نورا اعوان کے در میان لین دین کے جھگڑے کی باز گشت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سنی گئی مسلم لیگ (ن) نے قرض خواہ ( ملک نور اعوان) کے خلاف کارروائی کی مخالفت کردی‘ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر نے سیکیورٹی کے متعلق خدشات کا اظہار کردیا‘ سکیورٹی سٹاف سے پوچھ گچھ اور مجلس قائمہ میں واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے دونوں ایوانوں میں تحریک انصاف کی بجائے پیپلز پارٹی نے شیخ رشید احمد کا کیس لڑا چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ گزشتہ روز شیخ رشید احمد سے پارلیمنٹ کے احاطے میں ایک شخص نے بدتمیزی کی اور ان کو پکڑ کر جھنجھوڑتا رہا جب کہ پارلیمنٹ کا سیکیورٹی سٹاف کھڑا ہو کر دیکھتا رہا یہ پارلیمٹرین کا معاملہ ہے یہ ایک ہائوس نہیں پارلیمنٹ کا معاملہ ہے۔ ان سے نمٹنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اس شخص کے وزیراعظم کے ساتھ فوٹوز بھی سامنے آئے ہیںمسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری تنویر خان نے بھی مطالبہ کیا کہ اس پورے معاملہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اگر کسی شخص نے اس کا 22لاکھ روپے نہیں دیا تو اس کا حق ملنا چاہئے اس متاثرہ شخص کی بھی دادرسی ہونی چاہئے وہ میری جماعت کا کارکن ہے کارکنوں کے پارٹی قیادت کے ساتھ فوٹو ہوتے ہیں میری جماعت نے اس شخص کے خلاف جو ایکشن لیا ہے اس کی میں حمایت نہیں کرتا پہلے انکوائری ہونی چاہئے تھی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس کے احاطے میں پیش آنے والے واقعہ کی سینٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ امور کے تحت تحقیقات متوقع ہے ‘ کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے تحقیقات کیلئے اس معاملے کو ایوان بالا کی متعلقہ مجلس قائمہ کے سپرد کرنے کی ر ولنگ جاری کر دی قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سے لیگی رہنماء کے الجھنے کے معاملے پر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ‘ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی‘ اپوزیشن کی جانب سے شرم شرم ‘ مسلم لیگ (ن) کے گلو بٹ ''جبکہ حکومتی ارکان کی جانب سے'' بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں‘ ڈاکٹر عاصم‘ ایان علی‘ را کے ساتھی عزیر بلوچ پر جے آئی ٹی بنانے اور ڈاکو‘ ڈاکو'' کے نعرے لگائے گئے‘سپیکر ایاز صادق نے ماحول میں تلخی پر ایوان کی کارروائی15منٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑی ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت ریاستی طاقت کے ذریعے پارلیمنٹرین کو بے عزت کروارہی ہے پارلیمنٹ میں واقعہ ہونے کے بعد جلدی میں ڈپٹی سپیکر کے دستخط سے اس شخص کو پاس جاری کیا گیا ، شیخ رشید کو بے عزت کرنے کے لئے ڈرامہ رچایا گیا۔ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ اگر ملک نور محمد اعوان کو واقعہ کے بعد پارلیمنٹ میں داخلے کاپاس جاری ہونے کا الزام ثابت ہوئے تو میں ایوان سے استعفیٰ دے دوں گا ۔وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کیلئے نہیں کرپشن کی وجہ سے جیلیں کاٹیں، پیپلز رٹی کی قیادت کیساتھ عزیر بلوچ کی بھی تصاویر ہیں، ایان علی کے کس کیساتھ تعلقات ہیں؟عزیر بلوچ کا تعلق ''را'' کے ساتھ تھا یہ سب را کے ایجنٹ ہیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ سپیکر بتائیں کہ کیا جمشید دستی کی گرفتاری کی اجازت لی گئی، نواز شریف نے قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا، نواز شریف نے مجھے لندن میں خود بتایا تھا کہ برمنگھم میں میرا جلسہ تھا تو نعرے لگ رہے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر نواز شریف نے کہا کہ بکواس نہ کرو میرے ساتھ کوئی نہیں ہے،جس پر ایک بار پھر عابد شیر علی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ سپیکر صاحب نواز شریف نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا ایوان کی کارروائی سے بکواس کا لفظ حذف کیا جائے۔ شیخ آفتاب نے حکومتی ارکان کو بٹھانے کی کوشش کی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے عابد شیر علی کے دھمکی آمیز انداز گفتگو پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ماحول میں تلخی پر ایوان کی کارروائی 15 منٹ کے لئے ملتوی کر کے اپوزیشن لیڈر اور وفاقی وزرا کو اپنے چیمبر میں بلا لیا۔ بعد ازاں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزشین لیڈر سید خوشید شاہ نے کہا کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی ملک میں شہریوں کی گمشدگیوں کے معاملے کو سینٹ میں فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سپرد کردیا گیا‘ معاملہ جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر حافظ حمد اﷲ کی طرف سے اٹھایا گیا ہے‘ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے ان کے موقف کی تائیدکی ہے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پریس گیلری میں صحافیوں کی جانب سے اجلاس کے دوران موبائل فون سے ویڈیو بنانے کا نوٹس لیتے ہوئے صحافیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے قواعد پر عمل کریں اور پریس گیلری میں ڈسپلن کی پابندی کریں۔ آئندہ خلاف ورزی کرنے والے صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔