قحط الرجال

Jun 10, 2018

پاکستان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے 25جولائی کی تاریخ مقرر کردی گئی ہے ۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدوار کاغذات نامزدگی کے مرحلہ سے گزرنے میں مصروف ہیں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور صوبوں کی منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہو چکی ہیں ۔ اس سے قبل وفاق اور صوبوں کی سربراہی کیلئے نگراں وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کی تلاش شروع کردی گئی ۔ وفاق کیلئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان متعدد علاقوں اور متعدد شخصیات کے ناموں پر مذاکرات کے بعد بالآخر سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے نام اتفاق کرلیا گیا ناصر الملک نے اپنی کابینہ کا بھی انتخاب کرلیا ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے متعدد سیاستدانوں کے نام بھی زیر غور آئے لیکن یہ جماعتیں ملک بھر کی کسی بھی سیاسی شخصیت پر متفق نہ ہوسکیں اور بالآخر عدلیہ عظمیٰ کے سابق سربراہوں کے ناموں پر غور کیا گیا بعض حلقوں کی جانب سے فوج کی بعض اہم شخصیات کے ناموں کا بھی ذکر کیا گیا لیکن مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید کو ملک بھر سے صرف ایک ہی ایسی شخصیت نظرآئی جس کے بارے میں کہا گیا کہ ناصر الملک کا ماضی بے داغ ہے کسی قسم کا ان پر کوئی الزام نہیں ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیاستدان جو اپنے آپ کو پارسا سمجھتے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا پارسا نہ مل سکا جس پر اتفاق کیا جاسکے ۔ صوبوں میں بھی یہ ہی صورتحال ہے‘ تاہم سندھ میں سب سے پہلے سابق وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے بھی ایک بیورو کریٹ سندھ کے سابق چیف سیکریٹری فضل الرحمن کے نام پر اتفاق کیا جبکہ سندھ میں بھی متعدد سیاستدانوں کے نام زیر غور آئے۔ میڈیا میں بھی متعدد شخصیات کے ناموں کا ذکر کیا گیا لیکن سندھ میں بھی ایک بھی ایسا سیاستدان نہ مل سکا جس کے بارے میں تمام پارٹیاں کہہ سکیں کہ اس کا ماضی بے داغ اچھی شہرت ، کرپشن اور دیگر بدعنوانیوں سے پاک ہو ۔ کیا یہ ہمارے معاشرہ کا المیہ نہیں ہے کہ ایک تو اس وقت ملک گیر سطح پر ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جس کو غیر متنازعہ غیر جانبدار اور ہر طبقہ و ہر سیاسی جماعت کیلئے قابل قبول قرار دیا جاسکے ۔ ماضی میں بعض شخصیات ایسی ضرور تھیں کہ بعض شخصیات پر تحفظات کے باوجود سب احترام کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور ایسی شخصیات نے اپنا مثبت کردار بھی ادا کیا جن میں مجھے اسوقت دو شخصیات کے نام یاد آرہے ہیں ان میں نوابزادہ نصر اللہ خان جو بہت نفیس شخصیت ادب نواز شاعر اور سنجیدہ شخصیت تھے اور ان کو کسی حد تک قبول کیا جاتا تھا دوسری شخصیت جو مجھے یاد ہے وہ کشمیر رہنما سردار عبدالقیوم کی ہے جن کا احترام کیا جاتاتھا اور ان شخصیات نے ملک گیر سطح پر حکومتوں اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کو جھگڑوں میں تبدیل ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ کیا المیہ نہیں ہے کہ ہمارے پورے ملک میں سیاستدانوں میں یا سویلین میں ایسی شخصیات نہیں ملتیں جن کا ہر طبقہ اور ہر سیاسی جماعت احترام و اعتبار کرتی ہو کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں ہے کہ بحرانی کیفیت میں ایسے افراد وشخصیات دستیاب نہیں ہیں جو سب کو جوڑ کر بٹھا کر معاملات طے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ ملک کا چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو معیشت سے ہو اتفاق رائے کا فقدان ہے ۔ ہمارے ملک میں ایک بھیڑ چال ہے کہ جس طرح مویشیوں کو ہانکا جاتا یا مویشیوں کے ریوڑ ہانکے جاتے ہیں اسی طرح ہماری سیاست کا حال ہے ۔ ذرا غور کریں کہ کرپشن اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کئے ۔ کرپشن کے ثبوت پیش کرنے کے دعوے بھی کئے بعض ثبوت پیش بھی کئے گئے ۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ان کے عقیدتمند کا بصیرت و بصارت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اگر کوئی کسی پر کرپشن کا الزام عائد کرتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ تم نے بھی تو محلات بنائے اور اربوں روپیہ کی کرپشن کی ہے پھر جواب در جواب معاملہ چلتا رہتا ہے اور عوام گمراہی کا شکار ہی رہتے ہیں متعلقہ اداروں میں بھی طویل مدت تک کرپشن و دیگر حوالوں سے معاملات زیر غور پھر زیر التواء رہتے ہیں اور پھر کرپشن بدعنوانیوں کے یہ واقعات جن میں سے متعدد حقیقت پر مبنی بھی ہوتے ہیں لیکن معاملات کی طوالت و تاخیر کے باعث یہ حقائق بھی کہانیاں بن کر رہ جاتے ہیں ۔ یہاں پر ایک دوسرے پہ الزامات عائد کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچا اور سمجھا جاتا کہ ان کی اس بات سے ملک کے مفاد کو نقصان نہ ہواور ملک بھر کے عوام غیر ملکی دنیا میں بے توقیر نہ ہو ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنا ہمارے ملک میں بہت آسان ہے حالانکہ قوانین موجود ہیں ۔ ہتک عزت کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے لیکن یہ کرپٹ اور بدعنوان عناصر عدلیہ میں جاتے ہوئے اس لئے گھبراتے ہیں کہ کہیں خود جوابی وار کے باعث بے نقاب نہ ہوجائیں ۔ یعنی ہمارے معاشرے کے حوالے سے یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔ دیگر ممالک میں ہر طبقہ سے زیادہ احترام اساتذہ کا پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں بہت قابل احترام اساتذہ کی موجودگی کے باوجود نہ ان کی بات سنی جاتی ہے نہ قومی مسائل و وسائل کے حوالے سے ہونے والی بحث میں ان کو شریک کیا جاتا ہے ۔ ہمارے اساتذہ کرام بسوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں جبکہ معمولی افسر کا گن مین یا چپڑاسی بھی عیاشی سے زندگی گزارتا ہے ، جس معاشرے میں اساتذہ کی توقیر و احترام نہ ہو وہ معاشرے خود احتسابی سے بھی محروم رہتے ہیں اور بالاآخر تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہوجاتا ہے جیسی آج ہمارے معاشرہ کی صورتحال ہے ہر کوئی کسی کی حمایت یا مخالفت میں لگا ہوا ہے تعمیری کردار کا فقدان ہے ۔

مزیدخبریں