اسلام آباد (عبداللہ شاد) بھارت میں اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف تشدد کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں ایک بار پھر دلت کش فسادات بھڑک اٹھے۔ گزشتہ روز گجرات کے علاقے گودھرا میں ایک دلت نوجوان کو گاڑی کے ساتھ بائیک کھڑی کرنے کے جرم میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی حالت تاحال نازک ہے۔ اس کے بعد ہجوم نے گودھرا میں دلتوں کو مختلف جگہوں پرتشدد کا نشانہ بنایا گیا اور چھ دلت نوجوان تشویشناک حالت میں ہسپتالوں میں منتقل ہیں۔ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے انڈین آرمی اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شدید شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارتی گجرات کے ہی ضلع احمدآباد میں ایک دلت خاتون پر کرسی پر بیٹھنے پر تشدد کیا گیا۔ آنگن باڑی قصبے میں پلوی بین جادھو نامی خاتون دھوپ کی تمازت سے گھبرا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی جس پر جنونی ہندوئوں نے اس بات پر کہ وہ اچھوت ہو کرسی پر کیوں بیٹھی؟ اسے لات مار کا کرسی سے گرا کر مارپیٹ کی۔ بعد ازاں 30 سے زائد ہندوئوں کے گروہ نے اس کے گھر پر حملہ کر دیا اور ڈنڈے اور تیزدھار ہتھیاروں سے خاتون اور اس کے اہل خانہ پر تشدد کیا۔ متاثرہ خاتون اور اس کے ایک رشتہ دار کو آگ بھی لگا دی گئی مگر پولیس نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھائی اور زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا۔ بھارت کے کثیر الاشاعت ہندی اخبار دینک جاگرن کے مطابق نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف پر تشدد واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور عموماً ان جرائم میں ملوث ہندوئوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی اس کے بجائے مضروب طبقے کو ہی مشق ستم بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف مقدمے درج کر لئے جاتے ہیں۔