چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کا احتساب کب ہوگا؟
پیپلزپارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ جنہیں پھانسی گھاٹ اور بم دھماکے سے نہیں جھکایا جاسکا وہ گرفتاری سے کیوں جھکیں گے؟ بی بی شہید کے بچے کو گرفتاری اور جیل سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نےسابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ انہوں نے احتجاجاً گرفتاری دی۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد آصف زرداری عدالتوں کا سامنا کرنےکوتیار ہیں، ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، میں نےکہا تھا کہ مہنگائی پر حکومت کےخلاف عید کے بعد احتجاج کریں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو گرانےکا حق عوام کےپاس ہے۔
بلاول نے کہا کہ ہم سب نے مل کر پاکستان کو مسائل سے نکالنا ہے، تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ رکھوں گا، مولانا فضل الرحمان جب اے پی سی رکھیں گے ہم شرکت کریں گے، ہم ڈرنے والے نہیں آخری دم تک لڑیں گے، پاکستان اور انسانی حقوق کیلئے لڑتے رہیں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سب کچھ چلا رہی ہے، پاکستان میں زیادہ تر وقت آمریت رہی ہے۔
بلاول نے کہا کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر بھی پابندی لگارہی ہے، ایوب، ضیاء، مشرف اور عمران خان کے نئے پاکستان میں کیا فرق ہے؟ ایوب، ضیاء، مشرف کے دورمیں بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی آج بھی نہیں ہے، صرف اپوزیشن کا احتساب ہونا سیاسی انتقام کہلاتا ہے، علیمہ خان کوکلین چٹ مل گئی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی میں دوسری مرتبہ مجھے بولنے نہیں دیا گیا، گزشتہ سیشن میں بھی اسپیکر نےمجھے نہیں بولنے دیا، آج بھی وعدے کے باوجود بولنے نہیں دیا، دوسری طرف تین وزراء کو بات کرنے کا موقع دیا گیا۔
بلاول نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو مستعفی ہونا چاہیے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا رویہ قابل مذمت ہے، میری ذات کی بات نہیں، ایک ممبرقومی اسمبلی کوبات نہیں کرنےدی گئی، یہ میرے حلقے کے عوام کی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرستان کےممبران قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کیلئے اسپیکر کو خط لکھا تھا، یہ بھی کہا تھا کہ اسپیکر کے علم میں لائے بغیر انہیں گرفتار کیا گیا، اسپیکر وزیرستان کے دو نوجوان اراکین اسبملی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مارتے رہنا اور رونے بھی نہ دینے والا رویہ پرویز مشرف کے دورمیں بھی نہیں تھا، ملک کے ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے، قانونی اور انسانی حقوق پرحملے کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے گھر پر حملہ ہوا، بغیر لیڈی پولیس کے آغا سراج درانی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، مخالف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز نشر نہیں ہونے دیےجاتے، پارلیمنٹ ہاؤس کے فلور پر بات کرنے والے اراکین کی بات دبا دی جاتی ہے۔
بلاول نے کہا کہ آج ہمارا منصفانہ ٹرائل کا حق مجروح کیا گیا، نیب بغیر آرڈرز کے آصف زرداری کی گرفتاری کیلئے زرداری ہاؤس پہنچی، قومی اسمبلی اجلاس میں جانے نہیں دیا گیا، آصف زرداری نے آج بطور احتجاج گرفتاری دی۔
بلاول نے استفسار کیا کہ مشرف، ضیاء اور عمران خان کے نئے پاکستان میں کیا فرق ہے؟ پہلے بھی ججز کو نکالنےکی کوشش کی گئی، آج بھی ججز کو نکالنےکی کوشش ہورہی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نیب کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد ہونے پر کہا ہے کہ متنازع فیصلوں کو عوام نے کبھی قبول نہیں کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے ہائیکورٹ کی جانب سے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت مسترد کیے جانے پر پیپلز پارٹی کے جیالوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ متنازع فیصلوں کو عوام نے کبھی قبول نہیں کیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے حوالے سے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عدالتوں میں اپنی بےگناہی کو ثابت کیا ہے اور اس بار بھی کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی جانبدارانہ عدالتی فیصلوں کے باوجود قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ نیب اپوزیشن کو ہراساں کر رہی ہے۔ عدلیہ پر بھی سازش کے تحت حملہ کیا گیا۔ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم نے ضیاء الحق اور ایوب خان کی آمریت کا مقابلہ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے اسٹیبلشمنٹ ہی سب کچھ چلا رہی ہے۔ سی ای سی کی میٹنگ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے۔ قانون ہے کہ رکن اسمبلی کی گرفتاری سے پہلے سپیکر اسمبلی سے اجازت لی جائے۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ملکی مسائل زیادہ ہیں کوئی ایک پارٹی حل نہیں کر سکتی، جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن جب بھی اے پی سی بلائیں گے شرکت کے لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نیا پاکستان عوام کے لیے عذاب بن گیا ہے، چاہتے ہیں پارلیمان اپنی مدت پوری کرے لیکن لگتا ہے حکومت نہیں چاہتی کہ قومی اسمبلی چلے، اپوزیشن حکومت کا احتساب کرتی ہے، حکومت اپوزیشن کے خلاف جو کرتی ہے وہ سیاسی انتقام ہے، علیمہ خان کا احتساب کب ہوگا؟ انہیں اور جہانگیر ترین کو کلین چٹ دی گئی۔'
دوسری طرف آصف علی زرداری کی بیٹی آصفہ بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم جیلوں سے نہیں ڈرتے، بزدل سیلیکٹڈ حکومت سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کو جیل میں ڈال کر وہ جائز ہو جائے گی، کوئی مقدمہ نہیں، کوئی سزا نہیں، آصف زرداری کی گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں۔
ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زرداری کو گرفتار کر کے حق کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا، آصف زرداری پہلے بھی بری ہوئے اور آئندہ بھی بری ہی ہوں گے، حیران ہوں کہ وزرا گرفتاری سے کئی دن اور ماہ قبل عدالتی فیصلے سے کیسے باخبر تھے، زرداری ضمانت کی درخواست مسترد ہونے سے قبل کیسے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے، انصاف کا مزاق اڑیا جا رہا ہے۔
Hum jailon say nahin dartay hain. Tum koshish kar kay dekh lo. https://t.co/wwT4ZBal2b
— Aseefa B Zardari (@AseefaBZ) June 10, 2019
This cowardly selected government thinks throwing opposition into jail will legitimise it. No case, no conviction, no plausible cause. Arresting @AAliZardari will not silence the voice of truth. He was vindicated before and he will be vindicated again.
— Aseefa B Zardari (@AseefaBZ) June 10, 2019