اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل (پی این اے سی) میں گریڈ 17 سے 19 کے گیارہ افسران کی بھرتیوں میں بے ضابطگی، اقرباء پروری اور لاکھوں روپے رشوت لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی نے نو صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل کے دو پراجیکٹس کے لئے جو بھرتیاں کی گئیں ان میں ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں۔ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی این اے سی کے پراجیکٹ پاکستان نیشنل ہاسپٹل اینڈ ہیلتھ کیئر ایکریڈیشن (پی این ایچ ایچ اے) کے لئے گریڈ 18 کے ڈائریکٹر عتیق الرحمان نے جو عارضی طور پر پراجیکٹ ڈائریکٹر جنرل بنا ہوا تھا، نے اپنے اسسٹنٹ عرفان احمد جس کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن کا چارج دے رکھا تھا جب کہ اسسٹنٹ اکائونٹنٹ منصور ملک کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا اسامیوں پر بھرتیاں کیں۔ رپورٹ کے مطابق وزرات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے ایک ڈپٹی سیکرٹری جو ڈیپارٹمنٹل سلیکشن بورڈ کے ممبر تھے، وہ بھی ’’آن بورڈ‘‘ تھے کیونکہ ان کے بیٹے کو گریڈ 18 میں ڈپٹی ڈائریکٹر بھرتی کیا گیا تھا، اس کے باوجود کہ موصوف ملک سے باہر تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن گیارہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا ان کے پاس مطلوبہ اہلیت موجود نہیں تھی، رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر (اسیسمنٹ) کی سیٹ کے لئے پانچ سال کا میڈیکل فیلڈ کا تجربہ درکار تھا لیکن اس سیٹ پر کاشف احمد اعوان کا انتخاب کیا گیا جس نے اپنے سروس ریکارڈ میں دو سال ہوم ٹیوشن درج کر رکھی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسی پراجیکٹ میں برسوں سے کام کرنے والے جونیئر افسران جن کے پاس متعلقہ شعبے کا تجربہ اور تعلیمی قابلیت بھی موجود تھی، ان سے لاکھوں روپے رشوت طلب کی گئی اور انکار پر ان کی جگہ ناتجربہ کار افراد کو بھرتی کر لیا گیا۔ انکوائری کمیٹی نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھرتی کا عمل مکمل طور پر غیرشفاف تھا، بھرتیوں کے لئے لاکھوں روپے رشوت طلب کی گئی اور باہمی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل (پی این اے سی) کے پراجیکٹ میں بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے جب ڈائریکٹر جنرل عصمت خٹک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھرتیوں میں کی انکوائری انہوں نے خود کی ہے، یہ کانفیڈنشل معاملہ ہے اور ہم نے اپنی تحقیقات اور سفارشات وزارت کو بھجوا دی ہیں، کارروائی کرنا وزارت کے اعلی حکام کا معاملہ ہے، وہ اس حوالے سے کوئی بات کرنے کی سرکاری طور پر مجاز نہیں۔ جب اس ضمن میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مسیج کا جواب دیا نہ ہی کال ریسیو کی۔