اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس گلزار احمد نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی کارکردگی پہ اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ایچ اے کرپٹ ادارہ بن چکا ہے۔ این ایچ اے میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ ٹھیکیدار مال بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے این ایچ اے سے شاہراہوں کی مرمت اور حادثات کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ممبر پلاننگ شاہد احسان سے استفسار کیا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملنے والے فنڈز کہاں جاتے ہیں۔؟ این ایچ اے کسی روڈ پر معیاری کام نہیں کر رہا۔ این ایچ اے کی کوتاہی کی وجہ سے سڑکوں پر لوگ مر رہے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کا خون این ایچ اے کے ہاتھوں پہ ہے۔ ہائی وے کی زمینوں پر لیز کے پٹرول پمپس، ہوٹل، دکانیں بن گئی ہیں۔ عدالتی استفسار پر ممبر پلاننگ نے بتایا کہ رواں سال کے آخر میں روڈز کے حالت بہتر ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا ہائی ویز کے اطراف درخت تک نہیں۔ این ایچ اے میں ٹھیکیدار مال بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ این ایچ اے کو اتنے پیسے ملتے ہیں لیکن کس کے جیب میں جاتے ہیں پتہ نہیں۔ 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق 12894 روڈ ایکسیڈنٹ ہوئے 5932 افراد جان سے گئے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا آج کی خبر ہے رواں سال 36000 لوگ روڈ ایکسیڈنٹس میں ہلاک ہو گئے۔ عدالت نے این 25 ہائی وے کی خستہ حالی پر این ایچ اے کی رپورٹ مسترد کر دی۔