وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پانچ سو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) خریدنے کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پریس بریفنگ میں وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق بل قومی اسمبلی میں ہے۔ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے جس پر مسلم لیگ (ن) کی مخالفت باعث تشویش ہے جبکہ اس پر پیپلز پارٹی کے جواب کا انتظار ہے۔ اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دیا جائے گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم ٹیکنالوجی پارٹ پر الیکشن کمشن کی شرائط مکمل ہو گئی ہیں۔ ہم ای وی ایم کی پانچ سو مشینوں کا آرڈر دینے جا رہے ہیں جس سے پریس کلبز ، بار ایسوسی ایشنز اور دیگر تنظیموں کے الیکشن میں اس کی پریکٹس کی جائے گی۔
بے شک مروجہ انتخابی نظام پر سوالات اٹھتے رہے ہیں بالخصوص انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سے سیاسی ماحول مکدر ہوتا رہا ہے اور اسی تناظر میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ انتخابی نظام کے بیشتر معاملات چونکہ آئین پاکستان کے تابع ہیں اس لئے انتخابی اصلاحات کے لئے متعلقہ آئینی اور قانونی شقوں میں ترمیم کا معاملہ بھی زیر بحث آتا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں پروان چڑھے دھن ، دھونس ، دھاندلی والے کلچر میں مروجہ انتخابی نظام کے تحت آزادانہ ، منصفانہ ، شفاف اور بے لاگ انتخابات کے حوالے سے قومی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے تحفظات رہے ہیں اس لئے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خودمختار الیکشن کمشن کا راستہ نکالا گیا چنانچہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے دیگر ارکان کی نامزدگی کے لئے وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ختم کر کے یہ اختیار وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی بامعنی باہمی مشاورت کے تابع کر دیا گیا ۔ اس نئے طریقہ کار کے تحت فخر الدین جی ابراہیم کا انتخاب بطور چیف الیکشن کمشنر عمل میں آیا مگر وہ اپنی بے داغ شخصیت کے باوجود انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سے نہ بچ سکے چنانچہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ ان کے بعد تقرر پانے والے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا خاں بھی اپوزیشن اور حکومتی پارٹیوں کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی زد میں رہے تاہم انہوں نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا تحریک کا آغاز ہی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی بنیاد پر کیا گیا تھا چنانچہ انتخابی نظام میں اصلاحات پی ٹی آئی کا مطمحِ نظر اور انتخابی نعرہ بھی بنا رہا ہے جسے اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کی قیادت نے زیادہ فوکس کیا جبکہ 2018 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں اپوزیشن بنچوں پر آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ اس حوالے سے حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے زیادہ تردد سامنے آیا اور رواں سال سینیٹ کے انتخابات سے قبل حکومت نے شو آف ہینڈز کا طریقہ انتخاب رائج کرنے کا عندیہ دیا۔ پھر اس طریقۂ انتخاب کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کر دیا اور پھر اس ریفرنس کی سماعت کے دوران ہی صدارتی آرڈی ننس جاری کر کے شو آف ہینڈز کا طریقہ انتخاب رائج کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا جس پر عملدرآمد سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 226 کی بنیاد پر شو آف ہینڈز کے لئے حکومت کی درخواست مسترد کر دی۔ اسی دوران حکومت نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ای ووٹنگ کا طریقہ انتخاب رائج کرنے کا بھی عندیہ دیا اور پھر اس کے لئے بھی صدارتی آرڈی ننس جاری کر دیا گیا۔
چونکہ انتخابی اصلاحات سے متعلق یہ سارے معاملات آئین کی متعلقہ شقوں میں ترمیم کے متقاضی ہیں اس لئے حکومت کو، چاہے انتخابی اصلاحات کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہو، آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک انتخابی اصلاحات تمام قومی سیاسی جماعتوں کا مطمحِ نظر ہے اس لئے انتخابی اصلاحات کے معاملہ میں جس آئینی ترمیم کی ضرورت ہے حکومت اسمبلی کے ہائوس کے اندر اپوزیشن بنچوں کو اعتماد میں لے کر ان کی معاونت سے وہ آئینی ترامیم منظور کرا سکتی ہے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے اس لئے حکومت کو مروجہ طریق کار کے مطابق اس بل کی ہائوس میں منظوری کے لئے ہی کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔ اس معاملہ پر حکومت کو اپوزیشن بنچوں کا تعاون حاصل کرنے کے لئے ان کے ساتھ معاملہ فہمی سے کام لینا ہو گا اور الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ انتخاب رائج کرنے کے لئے اس کی افادیت پر اسے قائل کرنا ہو گا۔ فی الوقت تو خود الیکشن کمشن اس طریقہ انتخاب پر مطمئن نہیں جس کی جانب سے تحریری طور پر تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ای ووٹنگ سسٹم کے ماتحت ہونے والے امریکی انتخابات کی شفافیت پر بھی سوال اٹھے ہیں اور وہاں ہارنے والی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں کا واویلا کیا گیا۔ ہمارا تو انتخابی کلچر ہی دھاندلیوں کے الزامات کا شاہکار بنا رہتا ہے۔
اس تناظر میں گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی جانب سے پانچ سو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کا فیصلہ اگرچہ پریس کلبز ، بار ایسوسی ایشنز اور دوسری تنظیموں کے انتخابات کے لئے بروئے کار لانے کے لئے کہا گیا ہے تاہم بادی النظر میں یہ مشینیں لانے کا مقصد ملک کے آنے والے عام اور ضمنی انتخابات کے لئے ہی استعمال کرنا ہو سکتا ہے۔ اس سے لامحالہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کا نیا سلسلہ شروع ہو گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ آئینی ترمیم کی متقاضی انتخابی اصلاحات کی پارلیمنٹ کے مجاز فورم پر منظوری لینے کے بعد ہی کوئی عملی قدم اٹھایا جائے بصورت دیگر نیک نیتی سے کئے گئے فیصلے بھی متنازعہ ہونے کا امکان موجود رہے گا۔