فرانسیسی صدر میکرون کو شہری نے تھپڑ دے مارا
ویڈیو میں دیکھیں تو کسی طرح شک نہیں ہوتا کہ استقبالی ہجوم میں کھڑا یہ شخص جو فرانسیسی صدر سے ہاتھ ملائے گا نہایت سرعت کے ساتھ دوسرے ہاتھ سے میکرون کے منہ پر تھپڑ بھی جڑ دے گا۔ اسی قسم کے حادثات سے بچنے کے لیے شاعر نے کہا تھا ’’یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کرو‘‘ فرانسیسی صدر کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے والا یہ شخص ان کی سیاسی پالیسیوں کا ناقد تھا۔ جبھی تو اس نے صدر کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ اب جو لوگ ہمارے ملک میں مقتدر شخصیت کی سخت سکیورٹی اور عوام میں گھلنے ملنے سے پرہیز کی پالیسیوں پر شور مچاتے ہیں انہیں تسلی ہو گئی ہو گی کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ عوامی سیاست کا وہ دور لد گیا جب حکمران ہنستے مسکراتے عوام کے جم غفیر میں ان سے ہاتھ ملاتے گلے ملتے تھے۔ اب احتیاطوں کا دور ہے۔ ذرا بھر بھی بے احتیاطی کی تو چٹاخ پٹاخ سے کہیں کوئی گالوں کو لال ٹماٹر بنا سکتا ہے۔ سو اسی لیے ہمارے حکمران عوام سے دور دور رہتے ہیں اور بے وقوف عوام
کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں
میں نوں دسدیو ہویا کی قصور میرے کولوں
والا دکھڑا اِدھر اُدھر سناتے پھرتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ حکمرانوں کو کیسے کیسے خدشات گھیرے ہوتے ہیں…
٭٭٭٭٭
عالمی رینکنگ میں پنجاب یونیورسٹی دنیا کی 62 فیصد بہترین جامعات میں شامل
گزشتہ تین برسوں سے پنجاب یونیورسٹی کیو ایس رینکنگ کی فہرست میں 78 فیصد کی درجہ بندی میں شامل تھی۔اب 16 فیصد ترقی کر کے 62 فیصد والی فہرست میں آ گئی ہے اور دنیا کی بہترین جامعات میں شامل ہوگئی ہے جبکہ ایشین رینکنگ میں پنجاب یونیورسٹی کی پوزیشن 54 درجے بہتر ہوئی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ یہ بلاشبہ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر نیاز احمد اور دیگر تدریسی و غیر تدریسی سٹاف کی کاوشوں سے ممکن ہوا ہے۔ وہ اسی دلجمعی سے کام کرتے رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ عالمی جامعات کی فہرست میں پنجاب یونیورسٹی کا شمار بہترین درجہ بندی والی فہرست میں نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جامعات میں تعلیم و تدریس سے زیادہ سیاست اور گروپ بندی پر زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والی چپقلش جنم لیتی ہے۔ ان حالات میں کوئی تعلیم پر بھلا کہاں توجہ دے پاتا ہے۔ اس وقت بھی اگر سرکاری جامعات میں اس سیاسی اور گروہی وبا پر قابو پایا جائے تو ہماری جامعات کا شمار دنیا کی بہتر نہ سہی مگر اچھی جامعات میں ضرور ہو سکتا ہے۔ سیاسی ، سفارشی دبائو نے پہلے ہی بہت کام خراب کیا ہوا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ میرٹ پر سب کام ہوں۔ تدریسی امور ہوں یا دفتری سب میں اصلاحات کا ہنگامی پروگرام شروع ہو۔ تعلیمی اور تحقیقاتی سرگرمیوں کو مزید بہتر بنا کر اور اساتذہ مزید محنت اور دلجمعی سے تعلیم پر توجہ دیں تو ہم پنجاب یونیورسٹی کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں ڈینگی کے 3 مریض انتقال کر گئے
پنجاب میں محکمہ صحت اور ماہرین کچھ عرصہ پہلے سے خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ عوام کرونا کی افراتفری میں ڈینگی کو فراموش نہ کریں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ڈینگی جس طرح انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بن رہا ہے ، اس موسم میں بھی خطرہ ہے کہ ڈینگی ایک بار پھر کہیں بے قابو نہ ہو جائے۔ ایک تو پہلے سے ہمارے سروں پر کرونا کا عذاب مسلط ہے اب کہیں ڈینگی بھی ساتھ مل گیا تو پھر ’’یک نہ شد دو شد‘‘ والی مثال ہمارے سامنے ہو گی۔ ہم بیک وقت ان دو انسان دشمن طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ جس طرح کرونا سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات ضروری ہیں اسی طرح ڈینگی سے بھی محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی انتظامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ روز 3 افراد کی ہلاکت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اب حکومت اور عوام دونوں کو اس سالے چٹکی بھر مچھر سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ، جس طرح کرونا سے بچنے کے لیے ماسک لگا یا اور فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ ڈینگی کی ہلاکت خیزی سے بچنے کے لیے بس ایک ہی احتیاط کافی ہے۔ وہ یہ کہ اپنے اردگرد پانی جمع نہ ہونے دیں۔ گملوں میں ائیر کولر ہیں ، پرندوں کے برتنوں میں روز تازہ پانی دیں۔ بچا پانی پھینک دیں۔ پودوں کیاریوں کو مناسب پانی دیں۔ سوئمنگ پولوں میں پانی زیادہ دیر نہ رکھیں۔ احتیاط سب سے لازمی ہتھیار ہے جو اس مچھر سے بچا سکتی ہے۔ صفائی ویسے بھی نصف ایمان ہے تو کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔ گھروں میں پودوں پر سپرے کریں۔ حکومت بھی ذمہ داری نبھائے اور شہباز شریف دور کے ڈینگی سے بچائو پروگرام سے استفادہ کرے۔
٭٭٭٭٭
پنشنرز کا ٹیکس وصولی کے مجوزہ فیصلے کیخلاف احتجاج
یہ منظر واقعی دلخراش تھا کہ ضعیف العمر بزرگ لاہور پریس کلب کے باہر حکومت کی طرف سے پنشنروں پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ایک تو جون کے گرم ترین ایام میں جب آسمان سے سورج زمین پر آگ برساتا ہے۔ حکومت کی طرف سے پنشنروں پر ٹیکس عائد کرنے کی خوفناک خبر پر یہ بیچارے بوڑھے بیمار لوگ کب سکون سے بیٹھ سکتے تھے۔ سو کشاں کشاں دور و نزدیک سے احتجاج کرنے چلے آئے۔ پولیس والے شاید بھول گئے کہ انہوں نے بھی ریٹائر ہونا ہے وہ ان بزرگوں پر پل پڑے اور انہیں بری طرح رگیدتے رہے۔ شکر ہے کوئی بابا اس دھکم پیل میں گھائل نہیں ہوا۔ اسی دوران پریس کلب کے اردگرد بدترین ٹریفک جام رہا۔ سب سے بری حالت نجی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کی ہے۔ ان بے چاروں کو پہلے ہی ساڑھے آٹھ ہزار روپے پنشن ملتی ہے۔ اگر ان کی بھی اس معمولی رقم پر ٹیکس کٹوتی ہوئی تو پھر اس کے بعد ’’گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی‘‘ خدارا حکومت ان پنشنروں پر رحم کھائے ورنہ جلد ہی ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں کئی پنشنرز گرمی کے ہاتھوں اگلے جہاں سدھار سکتے ہیں۔ اگر ان بابوں نے وہاں جا کر حکومت کے خلاف شکایات کے انبار لگا دئیے تو کہیں کارکنان قضا و قدر حرکت میں نہ آ جائیں۔ کہتے ہیں بزرگوں کی بددعائیں اور دعائیں دونوں جلد اثر کرتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
جمعرات ‘ 29؍ شوال 1442ھ‘ 10؍ جون 2021ء
Jun 10, 2021