12ویں صدی قبل مسیح میں یونان کے علاقے سپارٹا کی ملکہ ہیلن کو ٹرائے شہر کے شہزادہ پیرس نے اغوا کرلیا۔ ملکہ کو واپس لانے کے لیے یونان اور ٹرائے کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی جسے ٹروجن وار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یونانیوں نے دس سال تک ٹرائے کا محاصرہ کیے رکھا لیکن شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یونان کے جزیرہ اٹہاکا کے بادشاہ اوڈیسیس نے ایک ماہر بڑھئی سے لکڑی کا تقریبا پچیس فٹ اونچا اور 10 فٹ چوڑا گھوڑا بنوایا۔ بادشاہ ایک ترکیب کے تحت اس میں چند ساتھیوں سمیت چھپ گیا۔ یونانیوں نے وہ گھوڑا ٹرائے شہر کے باہر رکھ دیا اور خود وہاں سے چلے گئے۔ ٹرائے کے باسیوں نے یونانیوں کو واپس جاتا دیکھ کر گھوڑے کو مال غنیمت سمجھا اور اسے شہر کے اندر لے گئے۔ جب اندھیرے اور نیند نے ٹرائے کے باسیوں کو اپنی آغوش میں لے لیا تو گھوڑے کے پیٹ سے اوڈیسیس اور اس کے ساتھی باہر نکلے اور انھوں نے شہر کا دروازہ کھول دیا۔ رات کی تاریکی میں یونانی لشکر بھی واپس آ چکا تھا جو دروازہ کھلنے پر شہر میں داخل ہوا اور ٹرائے کو تاخت و تاراج کردیا۔ وہ لکڑی کا گھوڑا جسے آج ٹروجن ہارس کے نام سے جانا جاتا ہے، جنگ جیتنے کا بنیادی سبب بنا۔ شہر میں لے جاتے ہوئے ٹرائے والوں کو ذرا خیال نہیں آیا کہ بغیر کسی وجہ کے چھوڑا جانے والا یہ گھوڑا دشمن کی ایک چال ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بظاہر ایک چھوٹی سی لاپرواہی کی جس کا خمیازہ انہیں ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی غلطی ٹائی ٹینک جہاز کے روانہ ہوتے وقت کی گئی جب ڈیوڈ بلیئر جو عملے کا رکن تھا مگر اب جہاز کے ساتھ نہیں جا رہا تھا، اتفاقیہ طور پر ٹائی ٹینک کے سٹوریج لاکر کی چابیاں کپتان کے حوالے کرنا بھول گیا۔ اس لاکر میں دوربین موجود تھی جس کی مدد سے جہاز کے ایک بلند مقام "کروز نیسٹ" پر کھڑے ہوکر ارد گرد منڈلاتے ہوئے خطرے کے بارے میں اطلاع دی جا سکتی تھی۔ دوربین کے دستیاب نہ ہونے سے ٹائی ٹینک کے کپتان کو سمندر میں آئس برگ کی موجودگی کی بروقت اطلاع نہ دی جا سکی اور یوں 15 اپریل 1912 کو دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز سمندر کی تہہ میں دفن ہو گیا۔
بظاہر چھوٹی لگنے والی غلطیاں قوموں کی تاریخ اور مستقبل کا فیصلہ کر جاتی ہیں۔ 1980 کی دہائی میں صدر ضیاء الحق نے پاکستان کے تعلیمی نصاب میں بے شمار تبدیلیاں کروائیں۔ بظاہر یہ اتنی بڑی بات نہ تھی۔ لیکن اس سے ملک تدریسی اعتبار سے مزید کئی طبقات میں تقسیم ہوگیا۔ اس وقت چونکہ ہمیں جہادی کلچر کو فروغ دینا تھا تو تمام ذرائع ابلاغ پر ہم نے افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے والوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا اور یوں کلاشنکوف اور جنگی کلچر عام ہو گیا۔ امریکہ کی سرد جنگ کا ٹروجن ہارس جب ہم نے اپنے ملک میں رکھ لیا تو اس کے پیٹ سے انتہا پسندی، نفرت اور فرقہ واریت کے جن باہر نکل آئے جنہوں نے امن و آشتی اور بھائی چارے کی پریوں کو یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ شاید اس وقت ہمارے ملک کے کپتان کے پاس بصیرت کی دوربین نہیں تھی جس سے وہ اندازہ لگا سکتا کہ فروغ جنگ و جدل اور میڈیا سنسر شپ کے آئس برگ ہمارے ملک کے ٹائیٹینک میں اتنے سوراخ کر دیں گے جنہیں سیکڑوں شہداء کے جسموں سے پر کرنا پڑے گا۔
اسی دور میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے "کروز نیسٹ" کی چابی بھی ہم نے سمندر میں پھینک دی اور پھر اس کے کواڑوں پر فرقہ واریت اور توہم پرستی کی ویلڈنگ کردی تاکہ کوئی بھی ذی شعور چاہتے ہوئے بھی جہالت کے دروازے توڑ کر عقل و شعور کی دوربین نہ لے سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کو پروپیگنڈہ اورگھٹن زدہ ماحول کے علاوہ کچھ میسر نہ تھا۔ گویا آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا.
ہمارے تیس قیمتی سال صرف ملک کے اتحاد کو قائم رکھنے اور جہل مسلسل سے لڑتے ہوئے گزر گئے۔ یوں بھارت ہم سے مزید آگے نکل گیا۔ ان غیر یقینی حالات میں بھی یہ قوم نا امید نہیں ہوئی۔ بقول فیض:
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے
مگر یہ شام کب ختم ہوگی؟ وہ صبح کب دیکھنی نصیب ہوگی جب عقل و دانش کی شبنم ہماری معاشرتی بنیادوں کی گھاس پر جمی ہوئی عدم برداشت کی گرد کو دھو کر ہمارا اصل رنگ دنیا کے سامنے پیش کرے گی؟ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم گزشتہ ستر سال میں کی گئی ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر غور کریں گے جنہوں نے ہمیں بڑے بڑے نقصان پہنچائے۔
ماضی میں مختلف طبقات کے لیے مختلف نصاب تعلیم کا ہونا معاشرے میں تقسیم کی ایک وجہ بنی۔ حکومت کا یہ فیصلہ کہ پورے ملک کے بچوں کے لیے یکساں نصاب ہوگا، خوش آئند ہے اور قومی یکجہتی کے فروغ میں مدد دے گا۔
اسی طرح سائنسی تحقیق کو ہم نے مذہب کے مرتبان میں ڈالے رکھا۔ جب بھی کوئی اسے کھولنے کی کوشش کرتا تو جہالت کے راون، بھگوان کے اوتار کا روپ دھار کر اس کے تمام راستے مسدود کر دیتے تھے۔ پچھلے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے اس مرتبان کو توڑا اور دور جدید کے تقاضوں کے تحت تحقیق کا آغاز کیا جسے جاری رکھا جانا چاہیے۔
ہمیں وہ تمام قفل کھولنے ہوں گے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس قوم نے اچھے دنوں کی آس میں بہت سی مشکلات جھیلیں ہیں اور ہر رہنما کا ساتھ دیا ہے۔ شاید اس امید پر کہ:
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا