ارشاد حسن خاں پاکستان کا انمول اثاثہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔ ایک معاون سے چیف جسٹس بننے تک کا سفرانہوں نے بڑی محنت سے طے کیا۔ اُن کی طویل جدوجہد، انتھک کوشش اور سچی لگن کا ہی ثمر تھا کہ وہ جوڈیشری کے ایک بڑے عہدے تک پہنچے۔ انہوں نے ایسے کئی تاریخی فیصلے دئیے جو آج بھی عدالتی تاریخ کا ناقابلِ فراموش اور انمٹ باب ہیں۔
ارشاد حسن خان نے ایک وکیل کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ متعدد بار کئی پیچیدہ کیسوں میں عدالتوں کی معاونت کی۔ پھر ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے سامنے آئے۔ بعد ازاں سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ چلے گئے۔ کچھ ہی عرصے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ سوانح عمری میں بیان کئے ہیں۔ سوانح عمری پر مشتمل اُن کی کتاب ’’ارشاد نامہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ بے شمار اہم قانونی واقعات، کئی تاریخی فیصلے اپنے بہترین سکرین پلے کے ساتھ اس کتاب میں موجود ہیں۔ جس سے کتاب کی دل آویزی و دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے ماہرین آئین و قانون اور صاحبِ علم و دانش نے کتاب پر اپنی سیر حاصل آرا پیش کی ہیں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ کا پیش لفظ چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا ہے۔اب میں ’’ارشاد نامہ‘‘ کے مندرجات کی طرف آتا ہوں لیکن اس سے پہلے ارشاد حسن خاں کا مختصر تعارف ہو جائے۔ تقسیم ہند سے پہلے جب صورت حال بڑی کشیدہ تھی۔ ہندو اکثریت والے علاقوں میں بلوائی مسلمانوں پر حملے کر رہے تھے۔ ایک خاندان نے دہلی سے لاہور بذریعہ ٹرین ہجرت کی۔ اس خاندان میں ایک بچہ ایسا بھی تھا جو پہلے ہی سے ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے محروم ہو چکا تھا۔ ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعروںمیں یہ خاندان لاہور اور لاہور سے پھر کراچی پہنچا۔ اس بچے کے بڑے بھائی نے اس بچے کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس وقت چاروں طرف بڑے خوفناک مناظر تھے۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ ہندوستان سے لُٹے پُٹے قافلے پاکستان آ رہے تھے۔ تاہم اس یتیم بچے نے بڑے بھائی کی سرپرستی میں کراچی ہی میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ بعدازاں یہی یتیم بچہ قانون کی دنیا میں ارشاد حسن خاں کے نام سے جانا گیا۔ عدلیہ کے ساتھ ایک وکیل اور جج کی حیثیت سے وابستگی نے اُن کے نام کو چارچاند لگا دئیے۔ اپنے حصّے کی کامیابیاں سمیٹیں اور وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ گو کہ آغاز ہی میں اُن کے راستے میں کافی مشکلیں آئیں۔ بہت سے مصائب بھی۔ لیکن کوئی بھی مصیبت اور مشکل اُن کا راستہ نہ روک سکی۔ وہ پُرعزم رہے اور اپنی منزل کی طرف رواںدواں نظر آئے۔
جب تک وکالت کی ۔ اُس میں بھی نام کمایا۔ اپنے دلائل سے نہ صرف ججز کو قائل کیا بلکہ ہر کیس جیتا۔ پھر ایک موقع ایسا بھی آیا جب انہیں ہائی کورٹ میں جج کے عہدہ کے لیے چُن لیا گیا۔ اُن کا یہ قدم بھی قابلِ ستائش ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں کم وسائل اور بے بہا مالی مشکلات کے باوجود کسی بھی تعلیمی انسٹی ٹیوشن سے فیس میں کوئی رعایت نہیں مانگی۔اور اصرار کے باوجود اپنی عدم دلچسپی ظاہر کی۔ ہائی کورٹ کے جج کے حیثیت سے جنرل مشرف کو تین سال میں انتخابات کرانے کا پابند کرنے والے بھی ارشاد حسن خاں ہی تھے۔ جبکہ مشرف انتخابات سے فرار چاہتے تھے۔ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں نہ چاہتے ہوئے بھی جنرل صاحب کو بآلاخر عام انتخابات کرانے پڑے۔ بحیثیت جج ارشاد حسن کے کئی فیصلے ایسے ہیں جو تاریخ کا اہم حصّہ اور سنہری باب ہیں۔
ارشاد حسن خان 9بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ اُن کے تین بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں یوں تو کثیر تعداد میں ججوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں لیکن ان میں ارشاد حسن خاں کا نام سرفہرست اور سب سے نمایاں ہے۔ وہ بطور وکیل اور جج اپنی مثال آپ رہے۔ اُن کے فیصلے اکثر کیسوں میں زیر بحث آتے ہیں اور ریفرنس کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔’’ارشاد نامہ‘‘ میں بہت سے کیس مکمل منظر نامے کے ساتھ مکالمے کی صورت میں ایسے بیان کئے گئے ہیں کہ پڑھنے والا خود بخود اُس ٹرائل کا حصّہ بن جاتا ہے اور محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کتاب کی زبان نہایت سادہ اور آسان ہے۔ جملوں کی روانی اس قدر خوبصورت ہے کہ کہیں بھی تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ یہ ایک بہترین کتاب اور ہمارا تاریخی اثاثہ ہے۔ قانون کے طالب علموں کو ہی نہیں، عام لوگوں کو بھی یہ کتاب آئینی معلومات میں اضافے کے لئے ضرور پڑھنی چاہیے۔