مڈل مین کے کردار نے پاکستان کے ہر شعبہ میں سسٹم کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ مڈل مین خواہ کوئی حکومتی عہدے دار ہو، کسی منڈی میں بیٹھا بروکر ہو، کسی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے رابطے کا ذریعہ ہو یا پھر پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے والا ہو، اس ملک میں نظام کی تباہی کا اصل ذمہ دار وہی ہے۔ یہاں فیصلے اور پالیسیاں وہ بناتا ہے جسے متعلقہ شعبے کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا اور عمل درآمد وہ کرتا ہے جو تمام تر حقائق جاننے کے باوجود اس میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں کر سکتا۔ چند سال پہلے کی بات ہے، لاہور میں ایک طاقتور تحقیقاتی ادارے میں دریائے سندھ پر ہیڈ تونسہ کی ڈاؤن سٹریم پر ایک دیوار بنائے جانے کو ماہر انجینئرز کی ایک ٹیم غلط اور بیراج کے لیے خطرناک قرار دے رہی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ بیراج سے تیز بہاؤ کے ساتھ نکلنے والے پانی کو مذکورہ دیوار روکتی ہے جس کی وجہ سے بیراج پر دباؤ پڑتا تھا جبکہ اس پراجیکٹ کے خالق انجینئرز کا موقف تھا کہ اس سے بیراج کو مضبوطی ملے گی۔ دونوں طرف سے ماہر انجینئرز نے اپنے موقف کے حق میں جب مذکورہ تحقیقاتی ادارے میں ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے سول انجینئر کے سامنے دلائل کے انبار لگا چکے تو مذکورہ سول انجینئر نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو اس ادارے میں محکمہ ہائی وے سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں اور انھیں بیراجز اور ہیڈ ورکس کے ساتھ ساتھ اری گیشن کے نظام کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں، لہٰذا آپ آپس میں طے کر لیں کہ کون درست ہے۔ میں مہر تصدیق ثبت کر دوں گا۔ یہ سب میری موجودگی میں ہوا کیونکہ اس فنی تضاد کو میں نے ہی ایک ٹی وی پروگرام میں رپورٹ اور ایکسپوز کیا تھا۔
کبھی کوریا ہمارے پانچ سالہ منصوبے مستعار لیتا تھا اور بھارت نے سابق وفاقی وزیر انور عزیز چودھری مرحوم سے بٹیر پال سکیم سمیت کئی لائیو سٹاک کے منصوبے سرکاری طور پر بذریعہ سفارت خانہ حاصل کیے تھے۔ کبھی جاپان نے پاکستان کو آج سے 57 سال قبل 1965ء میں یہ پیشکش کی تھی کہ ملک بھر میں موجود طویل ترین ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف کی اراضی انھیں 40 سال کے لیے لیز پر دیدی جائے وہ از خود بجلی پیدا کریں گے۔ زیر زمین پانی بھی جنریٹ کریں گے اور پھر موسم برسات کے پانی کو زیر زمین کنویں بنا کر سٹور بھی کریں گے تاکہ زیر زمین پانی کا لیول برقرار رہے۔ جاپان نے یہ بھی پیشکش کی تھی کہ وہ اس اراضی پر ہائبرڈ سبزیاں کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ ریلوے ٹریک کی بھی حفاظت کریں گے اور چالیس سال بعد ساری فوڈ ٹیکنالوجی پاکستان کو ٹرانسفر کر دیں گے۔ اس آفر میں یہ بھی شامل تھا کہ جو ویجی ٹیبل کی پیداوار کا تیس فیصد حصہ پاکستان کو ملے گا جبکہ 70 فیصد وہ ایکسپورٹ کریں گے۔ اس ساری ڈیل میں کوئی کمیشن نہ تھی اور نہ ہی کسی فیصلہ کرنے والے ’محب وطن‘ کو مالی مفاد، لہٰذا پچھلے 57 سال سے ریلوے ٹریک کے اردگرد محض دھول ہی اڑ رہی ہے کہ جاپان کی پیشکش ٹھکرا دی گئی تھی۔ پاکستان کے ساتھ اس قسم کے درجنوں نہیں سینکڑوں کھلواڑ ہوئے اور ہر باختیار نے حب الوطنی کے دعوے تو کیے مگر اپنے مفاد کی خاطر ملکی مفادات کے ڈھٹائی سے سودے کیے۔
گزشتہ سال کھاد کے بحران نے کاشتکار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور خصوصی طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کھاد کی سمگلنگ روکنے کی بجائے سمگلروں کے سہولت کار بنے رہے۔ ایسے ایسے جاہلانہ اور ظالمانہ فیصلے ہوئے کہ کاشتکار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اب پھر کھاد کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ گزشتہ حکومت میں تو کھاد کی سمگلنگ کے سب سے بڑے سہولت کار ازخود ایک وفاقی وزیر تھے جو خود بھی بہت بڑے کھاد پروڈیوسر ہیں اور انھوں نے اندھوں کی طرح ساری کی ساری ریوڑیاں چن چن کر اپنوں ہی میں بانٹ دیں۔ پاکستان میں یوریا کھاد دو ہزار سے بھی کم پر میسر تھی مگر دنیا بھر میں اس کی قیمت دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ بتایا جاتا ہے پاکستان میں یوریا کھاد کے لیے را میٹریل ارزاں ہے۔ تب باڈروں پر کھل کر دن رات سمگلنگ ہوئی جس پر ہر محکمے اور جملہ نگرانوں نے اپنا حصہ بقدرجثہ وصول کیا۔ وہ باڈر جہاں سے بندہ بھی نہیں گزر سکتا تھا کھاد سے بھرے ٹرالر بآسانی گزرتے رہے اور نوٹس لینے والوں نے نوٹس لینے اور کارروائی کرنے کی بجائے نوٹس کو نوٹوں میں بدلے رکھا۔ حکومت پنجاب نے کئی طرح سے اس بحران میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور کھاد کی ضلع بندی کر دی، پاکستان کی دو ہزار والی یوریا کی بوری افغانستان میں دس ہزار میں فروخت ہوتی رہی اور حکومت تماشائی بنی رہی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یوریا میں خود کفیل پاکستان یوریا کے بحران کا شکار رہا۔ نہ باڈر بند کیا گیا اور نہ ہی ضلع بندی ختم کی گئی۔ زمینی حقائق سے کوسوں دور رہنے والی بیوروکریسی نامی مخلوق اس بات کا ادراک ہی نہ کر سکی کہ کھاد کی ضلع بندی سے کس قسم کا نقصان ہو گا۔
اب غور فرمائیں کہ بالائی پنجاب میں چاول کی بوائی کے دنوں میں یوریا ڈالی جاتی ہے جو کہ پتا بناتی ہے جبکہ ڈی اے پی پیداوار بڑھاتی ہے۔ ان ایام میں چاولوں کی پیداوار والے اضلاع میں ان کھادوں کی ضرورت ہو گی اور حکومت کی جانب سے ضلع بندی نافذ رہے گی تو کھاد کی قلت ہی پیدا ہو گی۔ گزشتہ سال سمگلروں کے لیے سہولت اور کھاد ڈیلروں کے لیے چھاپوں اور ہراسمنٹ نے پاکستانی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تو موجودہ سال سونے پر سہاگہ یہ ہو گیا کہ کھاد فیکٹریوں کے لیے گیس سپلائی میں کٹوتی کر دی گئی، لہٰذا حکومت کی عوام دشمن اور عقل و خردسے کوسوں دور پالیسیوں کے باعث اس سال بھی کھاد کا بحران جاری رہنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ نہ تو ابھی تک کھاد کی سمگلنگ روکنے کے لیے باڈر بند کیے گئے ہیں اور نہ ہی ضلع بندی ختم کی گئی ہے۔ اس وقت مونجی کے علاقوں میں کھاد کی ضرورت ہے تو ضلع بندی آڑے آ رہی ہے۔ میں نے اس صورتحال کے حوالے سے اپنی معلومات کو تقویت دینے کے لیے ملتان کے سب سے بڑے کھاد ڈیلر رانا اقبال سراج سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ سرعام فروخت ہونے کی چیز کھاد کو سابقہ حکومتی پالیسی کے تحت ہراسمنٹ کے ذریعے از خود نایاب کیے رکھا۔ نہ جانے کس ’عقل مند‘ کے مشورے سے کسان دشمنی ہوتی رہی۔ موجودہ حکومت یہ خوف ختم کر دے، بیرون ملک سمگلنگ اور ضلع بندی ختم کرا دے۔ یہ بحران بڑی حد تک خود بخود ختم ہو جائے گا۔