کنویں کا پانی گدلا ترین ہوتا جا رہا تھا۔ جب کبھی کوئی پانی کے گدلے پن کو دور کرنے کنویں میں اترتا ، لوگوں کے چہروں پر امید جگمگانے لگتی۔طویل انتظار کے بعد جب وہ پانی کے گدلا پن میں اضافہ دیکھتے تو حیرت اور صدمہ سے بولنا بھول جاتے۔ کچھ لوگ شور مچاتے اور توجہ دلاتے کہ او بھائیو ! پانی تو اور بھی گندا ہو چکا ہے۔بجھی ہوئی آنکھوں اور اینٹھے ہوئے چہروں والے ساکت رہتے اور اس گندے پانی میں ہی ڈول ڈال کر اپنی پیاس بجھاتے۔انھیں سمجھ ہی نہ آتا کہ صاف پانی نتھار کر کسی اور طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ شور کرنے والوں کو کبھی تو تنبیہ کی جاتی ، کبھی انکے پاگل پن کا علاج کیا جاتا۔ یہ سوچ لیا گیا تھا کہ سزا کے خوف سے لوگوں کے شور میں واضح کمی آنے لگی ہے۔ ہر بار شور مچانے والوں کے سامنے سازو سامان سے بھرا تھیلا لیے کوئی بشر کنویں میں اترتا اور بارودی سرنگوں کی نشان دہی کر کے فرشتہ بن کے واپس آتا اور پھر اچانک اپنے حصہ کا پانی سمیٹ کر غائب بھی ہو جاتا۔ کنویں کے اندر باہر آویزاں ننگی تاریں دل دہلا رہی تھیں۔ کچھ جیالے ہمت کر کے کنویں کے دوسری طرف جا پہنچے اور انھوں نے دیکھا کہ کنویں کے دوسری طرف سر سبز باغات کا ایک سلسلہ ہے۔جسے کنویں کے پانی سے ہی سیراب کیا جاتا ہے۔ کنویں کو دل سے تشبیہ دینے والوں نے تو کمال خوب صورتی سے جال پھیلا رکھا تھا۔
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
یہاں تو دوسری طرف رنگینیوں کا سلسلہ ہائے دل نشیں تھا۔اور وہ تمام لوگ جو کبھی کنویں میں اترے تھے کسی نہ کسی پیڑ اور چشمہ کے کنارے بیٹھے چہل مستی میں مگن تھے۔ وہ خود کو جنتی اور گدلا پانی پینے والوں کو جہنمی قرار دے چکے تھے۔ دیکھنے والے گنگ تھے ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ ان سب کی غللطیوں سے سبق سیکھیں یا پھر چیخیں مار کر روتے رہیں۔دونوں صورتوں میں یہ غم دھلنے والا نہیں تھا۔سر پھرے جیالے تصویریں کھینچتے، کہانیاں لکھتے، یا پھر ثبوت اکٹھے کرتے آسائشوں میں مبتلا ریفری انھیں چپ کروانے کیلئے زنجیریں لیے امنڈ آتے اور ان کو جان کے لالے پڑ جاتے۔ قانون کو کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی اور چلتے پھرتے ، دندناتے آئین جب چاہتے لباس بدل کر نظریہ ضرورت کی تختی لگا لیتے یا پھر حب الوطنی کے ٹیگ۔ غدار گدلے پانی کو دیکھ دیکھ روتے رہتے۔ کنویں کے گرد کھڑے لوگ نعروں کے علاوہ کسی قابل نہیں تھے۔ کنویں کے پار بیٹھے ان گدھوں کی خیانت کا بوجھ گاؤں کا بچہ بچہ ڈھو رہا تھا۔اس گدلے پانی سے شاہین بھی کرگس صفت پیدا ہونے لگے تھے۔ جن کو مردار اور زندہ شکار کی لذت آشنائی بہائے لیے جا رہی تھی۔صاف پانی ہر کس و ناکس کو ملتا ہی کب تھا۔ اس پر پیاس بجھانے کو گدلا پانی ہی خود ساختہ شریعت میں فرض کیا گیا تھا اور بھاری ٹیکس بھی عائد تھے۔ پار اترنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ کنویں کا پانی سوکھتا ہے تو سوکھتا جائے ،ان کی بلا سے !
عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں " باولیاں " ( stepwell ) کے آثار ملتے ہیں۔شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے طور پر مستقل موجود رہنے لگیں۔
ان میں پانی کی سطح تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچا جا سکتا تھا۔اس میں ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں۔ امراء وہاں اپنے دفتر اور آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے. یہ کنواں بھی ایسی ہی باولی بن چکا تھا۔جس میں سیڑھیوں کے ذریعہ نہیں نقب لگا کر شفاف پانی کو روکا جاتا تھا۔اس کنویں سے جتنی بھی باولیاں بنائی گئی تھیں۔ ان کا پانی چمکدار سفید اور ٹھنڈا میٹھا تھا۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قدرتی طور پر پانی کا بہاؤ رک جائے ، پھلوں میں کیڑے پڑ جائیں ، گندم میں پتھر اور درختوں کو آگ لگ جائے۔ بجلی کی ننگی تاریں کنویں کی بے بسی کا بیان ہوں۔لوہے کی سیڑھیاں ان کا زاد راہ ہوں اور تھیلا کاندھے پر ڈالے " ہنر مندان " بیرون ممالک سائے تلے شاداں و فرحاں قرار پائیں۔ اور ہم یہ بھی نہیں پوچھ سکیں کہ : ’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘
کنویں کے گدلے پانی کی ایک ایک بوند کے لیے لوگ ترس رہے تھے۔جب بھی کنواں صاف کرنے اور پانی کے بہاؤ کی بات آتی۔سب گدلے پانی پر اتفاق کرتے۔ یہ توکل تھا ، مصلحت تھی یا پھر بے بسی کے ساتھ سمجھوتہ۔ مورخ کے پاس ہزاروں کہانیاں تھیں۔ جن میں جھوٹ سچ کی آمیزش بھی تھی اور گدلے پن کے ہزارہا جائز جواز بھی۔اس تناظر میں اپنا ہی ایک قطعہ
اسے تھا زعم بس اپنے یقیں پر
ہمارے دل کے ٹکڑے کٹ رہے تھے
مورخ گم تھے مووی دیکھنے میں
ہمارے خواب در در بٹ رہے تھے
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
Jun 10, 2022