حج کرنے والوں میں تین قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ایک وہ جن کو اللہ نے اتنا دیاہے کہ جس کا حساب کرنا محال ہے ،ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ کا روبار یا ملازمت کی وجہ سے اتنا عطا فرماتاہے کہ وہ صاحب استطاعت کی کٹیگری میں آجاتے ہیں اور ان پر حج کرنا فرض ہوجاتاہے اور تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو صاحب استطاعت بننے کےلئے تھوڑا تھوڑا جمع کرکے اور کچھ گھریلوسامان فروحت کرکے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ واجبا تِ حج جمع کراسکیں۔بہر کیف اصل بات محبت اور عقیدت کی ہے جب تک وہ موجود نہ ہوتو بعض لوگ یہی رقم کا روبار میں لگاکر منافع کرنے کوہی فائدہ تصور کرتے ہیں ،حالانکہ ےہ ان کی بھول ہے جو سکون اللہ کے گھر حاضری دینے میں اور اس سلسلے میں خرچ کرنے میںہے وہ دنیاوی کاروبار میں کہاں مل سکتاہے ۔خوش نصیب ہیں وہ جن کو اللہ نے دیا اور وہ حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور وہ بھی جوارادہ رکھتے ہیں ایک حدیث کا مفہوم ےہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ حج تو کریں گے لیکن اصل مقصد اللہ کی رضا نہیں ہوگا بلکہ اصل مقصد سیر و سیاحت ہوگا ۔کئی لوگ ےہ سوچتے ہونگے کہ حج میں کونسی سیر و سیاحت ہوسکتی ہے ۔جہاں تک میں سمجھتاہوں وہ ےہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے عطا کردہ مال کے بل بوتے پر جب زیادہ سہولتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تو ےہ بھی سیر و سیاحت کی ایک قسم بن جاتی ہے ۔حج کا نام آتے ہی تکلیفوں کا تصور ساتھ ہی ذہن میں آجاتاہے اور آنا بھی چاہئے ۔آج کل تو ہو ائی سفر کی سہولت حاصل ہے ماضی میں لوگ بحری جہازوں سے حج کرتے تھے ۔ہفتوں سمندر کے پانی کے علاوہ کچھ نظر نہ آتاتھا ۔قے اور سمندر ی بخار سے شاید ہی کوئی بچتا ہوگا تقریباً 10دن جانے اور اتنے ہی دن واپسی میں لگ جاتے تھے اس دوران نیلے آسمان اور نیلے سمندری پانی کے علاوہ کچھ نظر نہ آتاتھا ۔ٹھنڈ ازم زم صراحیوں والوں سے قیمتاً مل سکتاتھا ۔مطاف اتنا گرم ہوتاتھا کہ دن کے وقت طواف کرنا مشکل ہوتاتھا ۔منٰی میں پانی کی کمی تھی اور وضو کےلئے ایک لوٹا ایک ریال میںلیاجاتاتھا لٹرینیں کچی تھیں اور خیمے بھی ایسے تھے کہ ذرا سی ہوا چلی اور آگ لگنے کا خطرہ موجو د ہوتاتھا ۔بسوں اورمکانوں میں اے سی وغیرہ بھی موجود نہ تھے ۔اس کے مقابلے میں آج کل ہر وہ سہولت موجود ہے جن کا بعض لوگ اپنے گھروں میں تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن ےہ بد قسمتی سے جو سہولتیں موجود ہیں ان کو بعض لوگ مالدار ہونے کی وجہ سے سہولتوں کی بجائے تکلیفیں محسوس کرتے ہوئے اس سے بھی زیادہ آسائیش حاصل کرنے کےلئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرتے اور اصراف کی حد کراس کرجاتے ہیں ۔ضرورت سے زیادہ آرام طلب بننے کےلئے کوشاں رہتے ہیں ،حالانکہ طلب تو صرف اللہ کی رضا کی ہونی چاہئے ۔اللہ تعالیٰ اپنے
گھر حاضری کےلئے اسلئے بلاتاہے کہ مسلمانوں سے جو کوتاہیاں ہوچکی ہیں ان کی معافی مانگیں اور اللہ کو راضی کریں اوروہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتاہے جب ہم دنیاوی منقطع کرکے اللہ سے تعلق پیدا کریں مخلوق سے منہ موڑکر اللہ سے لولگائےں ۔اللہ نے جو آرام و آسائش دے رکھا ہے اسے ترک کرکے اللہ کی رضا کےلئے تکلیفیں برداشت کریں ۔بڑی بڑی کوٹھیوں میں زندگی گزارنے والے اللہ کی رضا کےلئے ریت ،مٹی اور خیموں میں چند دن گذاریں جن کی گاڑیوں کے دروازے کھولنے والے نوکر تھے اللہ کی رضا کےلئے بس میں قطار بناکر سوار ہوں اگر بیٹھنے کی جگہ نہ ملے تو کھڑے ہوکر سفر کریں اور سمجھیں کہ اللہ مجھ سے ان کاموں کی وجہ سے راضی ہوگا۔ایک زمانہ تھاکہ حاجی جب بحری جہاز سے اُترتے تھے تو لوگ عقیدت کے طور پر ان کے پاﺅں کے ساتھ ارض مقدس کی مٹی لگتی ہی نہیں تو عقیدت مند اپنے اوپر کیا ڈالیں گے ۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مسجد الحرام میں پڑھی گئی ایک نماز کا ثواب دوسری جگہ پڑھی گئی نماز کی نسبت ایک لاکھ گنا اور مسجد بنوی میں پڑھی گئی نماز کا ثواب 50ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔اسکے باوجود بعض حجاج جلدی واپسی کےلئے زیادہ کراےہ اد اکرکے اپنے دنیاوی کاموں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور وہاں پورے دن گزار نا نہیں چاہتے ۔یہاں جب نعتوں میں مکہ اور مدینہ کی گلیوں کا ذکر ہوتاہے تو آنکھیں آنسوﺅں سے چھلکنے لگتی ہیں لیکن جب ان گلیوں میں چلنا نصیب ہوتو حرم سے دوری کا شکوہ کرتے دکھائی دےتے ہیں،حالانکہ باربار ہر نماز کے بعد اپنی رہائےشوں میں جانے سے ےہ بہترہوتاہے کہ ضروریات سے فارغ ہوکر ایک ہی دفعہ حرمین میں حاضری دی جائے اور پھر عشا کے بعد رہائےشوں میں واپسی ہو ۔اس طرح دوری کا احساس بھی کم ہوگااور حرمین شریفین میں زیادہ وقت عبادت کےلئے میسر آئے گا۔ماضی میں لوگ حج پر روانہ ہوتے وقت اپنی دنیاوی ذمہ داری ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر جاتے تھے اور سنت کے مطابق اس سفر کو زندگی کا آخری سفر تصور کرتے تھے ۔باالفاظ دیگر گھر والوں سے رابطہ منقطع کرکے جاتے تھے ۔موبائےل فون کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن ےہ نقصان ضرور ہے کہ بعض لوگ اس کی وجہ سے ہر وقت گھر والوں سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات یوں بھی ہوتاہے کہ طواف جیسی اہم عبادت کے دوران بھی موبائےل بند نہیں کرتے اور خشوع خضو ع کے بجائے گھروالوں کو بتانا پسند کرتے ہیں کہ اب ان کا دوسرا چکر ہے وغیرہ ،بلکہ آج کل تو طواف کے دوران موبائےل سے فوٹو گرافی کرتے دکھائی بھی دےتے ہیں اور یہی کام روضہ اطہر پر حاضری کے وقت بھی بعض حجاج کرنا پسند کرتے ہیں ۔پیارے اللہ کے مہمانو! صحیح معنوں میں حج کی سعادتوں سے بہرور ہونا ہے تو عجزو انکساری کو اپنا شعار بنائےں ۔جب قیمتی لباس اتار کر فقیر انہ لباس پہن لیاجائے تو عادات بھی فقیرانہ اور عاجزانہ اپنانی چاہئےں ۔نمود و نمائےش کو ترک کرکے سادگی اپنانے کی ادا للہ تبارک و تعالیٰ زیادہ پسند کرتاہے ،اور حج کے موقع پر تو اس کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے ۔