ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا ہماری بڑی کو تاہی رہی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ قومیں غلطی نہیں کرتی ہیں ،لیکن غلطیاں کرنے کے بعد سبق سیکھا جاتا ہے اور ان غلطیوں کا ازالہ کیا جاتا ہے ۔لیکن ہم وہ قوم ہیں جو کہ غلطیاں کرنے کے بعد ان غلطیوں کو متواتر دو ہرارتے رہتے ہیں ،اور ان سے کو ئی سبق نہیں سیکھتے ہیں ۔ہم نے کبھی بھی عوام کو با اختیار نہیں بنایا ہے ،اور مہذب جمہوری حکومت میں عوام کو با اختیار بنانے کا واحد طریقہ مقامی حکومتوں کا نظام ہوا کرتا ہے ۔مقامی حکومتیںمضبوط کیے بغیر ملک مسائل سے نہیں نکل سکتا ہے بلکہ مسائل مزید گھمبیر ہو تے چلے جا ئیں گے ۔یہ بہت بڑا جرم ہے اور ہم نے یہ جرم بہت ہی ڈھٹیائی کے ساتھ کیا ہے ۔اور مسلسل ہی کرتے آئے ہیں ،اور صرف مقامی حکومتوں کا قیام ہی نہیں بلکہ ان کو با اختیار بنانا بھی اہمیت کا حامل ہے ۔اس کے بغیر یہ حکومتیں ڈیلور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گی ۔مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں تمام مقامی معاملات جن میں لا ءاینڈ آرڈر تعلیم صحت او ر دیگر معاملات بھی دینے چاہیے ،اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ بڑھتی ہو ئی آبادی ہے جتنی اس ملک کی آبادی ہے ،اتنے ہمارے وسائل نہیں ہیں ۔آبادی کو کم کرنا وقت کی ضرورت ہے ،آنے والے دنوں میں ہمیں فوڈ اور واٹر سیکورٹی کے معاملات بھی درپیش ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کے درینہ مسائل گھمبیر سے گھمبیر ہو تے چلے جا رہے ہیں اور ڈالر کی کمی ہمیں ایک بار پھر دیوالیہ پن پر لے آئی ہے ۔کیا اس ملک کی تقدیر میں لکھا ہے کہ اس ملک نے ہر چار سال کے بعد آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے در پر بھیک مانگنے جانا ہے یہی مسئلہ ہمیں 2018ءمیں بھی درپیش تھا اور یہی مسئلہ اب ہمیں ،2022ءمیں درپیش ہے ،ہماری معیشت ایسے گرداب میں پھنس چکی ہے جس میں سے نکلنا ممکن دیکھائی نہیں دے رہا ہے ،ہمارے ملک پر قرضے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی واپسی ہمارے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہے اور ہم اس بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ۔ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی برآمدات کو ہنگامی طور پر بڑھایا جائے اور درآمدات پر کنٹرول کیا جائے ،ورنہ ہماری معیشت بار بار اسی طرح دیوالیہ پن کا شکار ہو تی رہے گی اور ہمیں کسی صورت میں بھی اس معاشی بحران سے نجات نہیں ملے گی ۔پاکستان ایک بڑا ملک اور ایک بڑے ملک کا بار با ر اسی طرح معاشی گرداب میں پھنس جانا اور بیرونی امداد کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جانا کسی طرح ہمارے لیے سود مند نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ ہمارے شیان شان ہے ۔ہمیں اپنے انسانی وسائل کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ،ضروری نہیں کہ پر بندہ ہی ڈاکٹر یا انجینئر بن سکے بلکہ جو لوگ نہ بن سکیں ان کی تربیت کا نظام ہونا بہت اہم ہے ۔پاکستان کو اپنی پیدا وار بڑھانے کی ضرورت ہے اور فوری طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے ۔اگر پاکستان اگلے چند سال کے اندر یہ نہ کرسکا تو پاکستان خدا نخواستہ اس قابل نہیں رہے گا کہ اپنے لیے ہو ئے قرض ہی واپس کر سکے اور اس صورت میں ملک کا بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور اس حوالے سے غور کریں ۔میں اس کے علاوہ بلو چستان کے حوالے سے بھی بات کرنا چاہوں گا گزشتہ دنوں میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا ہے اور کامیابی سے ہوا ہے ،بلوچستان بھر میں عوام نے ان انتخابات میں حصہ لیا ہے اور اپنی مرضی کے امید واروں کو ووٹ دیا ہے ۔پر امن ماحول میں ان انتخابات کا انعقاد انتظامیہ کی بڑی کامیابی ہے ۔اور اس کو سراہا جانا چاہیے لیکن میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ بلوچستان کے مسائل اب بھی جوں کے توں موجود ہیں ۔جتنی تیز رفتاری سے ان مسائل کے حل کے لیے کام کیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا جاسکا ہے اور گوادر شہر میں جو کہ سی پیک کا محو و مرکز ہے ،یہاں کے باسیوں کو پینے کا پانی اور بجلی جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔اور یہ سراسر زیادتی ہے ۔بلوچستان کا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی موجودگی بہت کم ہے جس کا اندازہ ہمیں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے بھی ہو تا ہے ۔مسلم لیگ ن ،پیپلز پا رٹی اور تحریک انصاف سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اس الیکشن میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے مقامی قیادت اور مقامی جماعتیں ہی زیادہ تعداد میں ان انتخابات میں کامیاب ہو ئیں ہیں ،مجھے یا د ہے کہ جب ذو الفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو اس دور میں وہ بلوچستان میں بار بار آتے تھے یہاں پر وقت گزارتے تھے اور انھوں نے بلوچستان میں بڑی حد تک اپنی جماعت کی ایک مضبوط بیس بنا لی تھی اور شاید پیپلز پا رٹی ہی پاکستان کی پہلی اور آخری سیاسی جماعت تھی جس کو کہ بلوچستان میں مقبولیت حاصل ہو ئی اور بھٹو صاحب کی وجہ سے حاصل ہو ئی ۔اس کو برقرار نہیں رکھا جاسکا ہے ،بھٹو صاحب کے بعد یہ تمام کاوش ضا ئع ہو گئی ہے اور آج بھی ہمارے لیے مسائل کا باعث ہے ۔آج کی قومی قیادت کو بھی ضرورت ہے کہ بھٹو صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ،بلوچستان کو وقت دیں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں ،ان کے حل کے لیے کا وشیں کریں ،بلوچستان کے عوام کو احساس دلائیں کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اسی طرح بلوچستان کو مین سٹریم میں شامل کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔عام انتخابات زیادہ دور نہیں ہیں اور ہماری قومی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ ان انتخابات میں بھرپور انداز میں بلوچستان کے سیاسی میدان میں اتریں اور کام کریں ،جتنی ہی بلوچستان میں قومی سیاست مین سٹریم ہو گی اتنا ہی بلوچستان مین سٹریم ہو گا جو کہ وقت کی ضرورت ہے ۔