عامر لیاقت کی زندگی اتار چڑھاﺅ کا شکار، تینوں شادیاں ناکام

کراچی (قمر خان)کامیاب ترین ٹی وی میزبان عامر لیاقت کی ازدواجی زندگی اتار چڑھا کا شکار رہی اور ان کی تینوں شادیاں بد قسمتی سے کامیاب نہ ہو سکیں۔ عامر لیاقت نے پہلی شادی ڈاکٹر بشری سے کی تھی، جن سے ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں، جن کی عمریں 20 سال سے زائد ہیں۔ ان کی ڈاکٹر بشری کے ساتھ طویل رفاقت رہی تاہم کچھ نجی مسائل کے سبب دونوں میں علیحدگی ہوگئی تھی اور ڈاکٹر بشری اقبال نے دسمبر 2020 میں تصدیق کی تھی کہ عامر لیاقت نے انہیں طلاق دے دی ہے۔ عامر لیاقت نے دوسری شادی ماڈل و اداکارہ طوبی انور سے جولائی 2018 میں کی تھی جو ان سے کئی سال کم عمر تھیں اور دونوں کی شادی 4 سال سے بھی کم عرصے تک چلی۔ گزشتہ سال فروری میں طوبی انور نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے عامر لیاقت سے خلع لے لی ہے، تاہم عامر لیاقت مسلسل اس کی تردید کرتے رہے۔ عامر لیاقت نے تیسری شادی فروری 2022 میں بہاولپور کی 18 سالہ لڑکی دانیہ شاہ سے کی تھی، جنہوں نے چند ہی ماہ بعد مئی کے آغاز میں خلع کے لیے مقامی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ دانیہ شاہ کی جانب سے خلع کے لیے درخواست دائر کرنے کے بعد عامر لیاقت نے ان کی مبینہ آڈیو اور بعد ازاں دانیہ شاہ نے بھی عامر لیاقت کی مبینہ آڈیو اور ویڈیوز لیک کی تھیں اور دونوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی لگائے تھے۔ بعد ازاں عامر لیاقت نے ہار تسلیم کرتے ہوئے دانیہ شاہ سے معافی مانگتے ہوئے پاکستان چھوڑ جانے کا اعلان کیا تھا، تاہم انہوں نے ملک چھوڑنے کی تاریخ نہیں دی تھی۔عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت حسین کے ساتھ ساتھ ان کی والدہ محمودہ بیگم سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) سے وابستہ رہے، تاہم 90 کی دہائی میں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ نوجوانی میں اے پی ایم ایس او کا حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت نے ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فانڈیشن کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ والد کے کوٹے پر سیاست میں قدم رکھنے والے عامر لیاقت نے 2002 میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور کا منصب بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران وہ اپنے کچھ بیانات اور مختلف نجی پروگراموں کے دوران شعلہ بیانی پر بھی تنقید کی زد میں رہے بالخصوص چند متنازع بیانات پر مذہبی حلقوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یاد رہے کہ عامر لیاقت کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر 2008 میں ایم کیو ایم سے نکال دیا گیا تھا، تاہم ان کی پارٹی رکنیت کچھ سال بعد بحال کردی گئی تھی۔ ایک عرصے تک وہ سیاست سے کنارہ کش رہے اور اس دوران مختلف نجی چینلز پر مختلف پروگرامات بالخصوص رمضان ٹرانسمیشن کی وجہ سے عوام و خواص میں مقبول رہے۔ 2016 میں وہ ایک مرتبہ پھر سیاست میں ماضی کی طرح سرگرم ہونے لگے اور 22 اگست 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد اسی رات رینجرز نے متحدہ کے دیگر رہنماں کے ہمراہ عامر لیاقت حسین کو بھی کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ میں قائم ان کے دفتر سے حراست میں لیا تھا، تاہم کچھ گھنٹوں کے بعد ان کو رہا کردیا گیا تھا۔ عامر لیاقت نے اگلے ہی روز ایم کیو ایم سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور کہا تھا کہ اب وہ کبھی سیاست میں قدم نہیں رکھیں گے۔ تاہم سیاست میں واپس نہ آنے کا فیصلہ انہوں نے جلد ہی تبدیل کر لیا تھا اور مارچ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور پھر اسی سال کراچی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
 ناکام

ای پیپر دی نیشن