اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وفاقی بجٹ 2023-24پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایوان کے سامنے اتحادی حکومت کا دوسرا بجٹ برائے مالی سال 2023-24 پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب روپے کا اضافہ کے ساتھ یہ 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی سالانہ 329 ارب روپے بڑھا۔ PTI کے چار سالہ دور میں GDP کے تناسب سے اوسط بجٹ خسارہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور سے تقریبا دو گنا تھا۔ اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مال سالی میںGDP کے 7.9 فیصد سے کم ہو کر رواں مالی سال میں GDP کا 7.0 فیصد ہوگیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کیلئے مشکلات پی ٹی آئی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی دوراندیش قیادت میں حکومت نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ حکومت نے اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کئے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ 9مئی کو رونما ہونے والے المناک شرمناک، ملک دشمن واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سا لمیت، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھناﺅنی اور منظم سازش کی۔ ایسے تمام عناصر کو پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیں۔ ملکی معیشت کو پچھلے ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے ملکی املاک اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ سال 2022 کے دوران بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال جس میں یوکرین کی جنگ، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافہ نے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ تجارتی خسارہ جوکہ سال 22۔2021 میں 48 ارب ڈالر تھا، مالی سال 23۔2022 میں تقریبا 26 ارب ڈالر متوقع ہے۔ تقریبا 22 ارب ڈالر کی کمی لائی گئی ہے۔ حکومت نے IMF پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے۔ حکومت باقاعدگی سے مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کوشش ہے کہ جلد سے جلد دستخط ہو جائیں ۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ پہلےBISPکے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں25 فیصد اضافہ کیا اور بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا۔ اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہو چکا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کیلئے26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ پٹرول کی قیمت میں20 روپے، ڈیزل35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 کمی کی گئی۔ امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ جولائی 2022 سے اب تک حکومت ماضی کی تقریبا 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے اور تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر9 ارب34کروڑ ڈالر ہیں۔ موجودہ حکومت نے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کیلئے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکج دیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے۔ گندم کی بمپرکراپ ہوئی ہے۔ ہماری دیہی معیشت میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔ بجٹ 24۔2023 کے ذریعے حکومت زرعی شعبے کیلئے مراعات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ تعمیر نو کیلئے حکومت نے 578 ارب روپے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔بجٹ مالی سال 24۔2023 کے ذریعہ ملک استحکام سے ترقی کی جانب گامزن ہو گا۔ اگلے مالی سال کیلئے ترقی کا ہدف (GDP) صرف 3.5 فیصد رکھا ہے۔ جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔اگلے مالی سال میں اس شعبے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں،زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہیں، ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرحپنیری کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔موسمی تبدیلی کی وجہ سے ہارویسٹنگ کی مدت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، کمبائن ہارویسٹر کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے یہ تجویز ہے کہ ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنی دیا جائے۔ چاول کی پیداوار بڑھانے کیلئے سیڈر رائس پلانٹر اور دیگر کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنی کی تجویز ہے۔
پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے Free Lancers کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کیلئے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔ فری لانسرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسرزکو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کیلئے ایک سادہ سنگل پیج انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جا رہا ہے۔آئی ٹی اور آئی این ایبل پروائڈرزکو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ اینڈ ہارڈبغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50,000 ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔Tآئی ٹی اورآئی ٹی سروسز کے ایکسپورٹرزکیلئے آٹو میٹد ایکسپنشن سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔IT شعبہ کو SMEs کا درجہ دیا جا رہا ہے جس سے اس شعبہ کو Concessional Income Tax rates کا فائدہ ملے گا۔IT کے کاروبار کی Mentoring کیلئے Venture Capital کی بہت اہمیت ہے۔ بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کیلئے حکومتی وسائل سے VentureCapital Fund کا قیام کیا جائے گا۔ICT کی حدود میں IT Services پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔IT کے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کیلئے بینکوں کو اس شعبے میں20 فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہو گا۔اگلے مالی سال میں 50 ہزار IT Graduates کو Professional Training دی جائے گی۔سمال این ڈ میڈیم انٹر پرائززمیشت کی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ تعمیرات، زراعت اور ایس ایم ایز کی حوصلہ افزائی کے لئے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر 39فیصد کی بجائے 20فیصد Concessional Taxکی سہولت اگلے 2مالی سالوں میں یعنی 30جون 2025تک میسر ہو گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بیرونی زر مبادلہ کے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر موجود Final Tax 2%ختم کیا جا رہا ہے۔ کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہے، بجٹ میں سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لئے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ٭ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان کا ایک فلیگ شپ پروگرام ہے موجودہ حکومت نے بجٹ 2023 میں 360 ارب روپے تک بڑھا دیا تھا۔ رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کرکے 400 ارب روپے کیا گیا۔ اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔مالی سال 2023-24 میں BISP کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی جس کے لئے 346 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ کار 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریبا 83 لاکھ تک کیا جائے گا جس میں 52 فی صد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کیلئے 55 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ 92 ہزارطالب علموں کو بینظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بینظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہے گا اور پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھا کر 15 لاکھ کی جائے گی جس کے لئے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لئے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لئے آٹے چاول چینی دالوں اور گھی پر ٹارگٹیڈ سبسڈی دی جائے گی۔ مستحق افراد کے علاج اور امداد کیلئے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کیلئے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فی صد کی جارہی ہے۔ استعمال شدہ کپڑے کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں اور ان کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے۔نیشنل سیونگ سنٹرز کے ذریعے کم آمدن والے افراد کے لئے مائیکرو ڈیپازٹس کی نئی سکیم یکم جولائی 2023 سے شروع کی جارہی ہے جس پر شرح منافع نسبتا زیادہ ہوگا۔ یہ اکاﺅنٹ Digitally کھولنے کی سہولت بھی میسر ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے درآمدات پر انحصار کرتا ہے ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے اس قیمت میں کمی کرنے کے لئے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور سولر انرجی کو فروغ دینے کیلئے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے ہے جس میں سے Interest payment پر 7,303 ارب روپے خرچ ہوں گے ۔ اگلے سال PSDP کے لئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ Public private partnership کے ذریعے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1,150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔ملکی دفاع کیلئے 1.804 ارب روپے سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 714 ارب روپے مہیاکئے جائیں گے۔ پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لئے 1.074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 1,464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، سپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کیلئے فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی Liability پورا کرنے کیلئے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفراسٹرکچر کی فراہمی، افرادی ترقی، Regional Equity اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔اگلے مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہو گا۔ یہ رقم جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پچھلے دور میں ترقیاتی اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے تقریبا 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ پچھلے چار سال کی تباہی و بربادی کی وجہ سے ترقیاتی وسائل آدھے رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی ترقیاتی ضروریات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ترقیاتی اخراجات ملک کی اہم ترین ترجیحات پر خرچ کئے جائیں۔ 80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ جون 2024 تک ان کی تکمیل کی جا سکے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی کیلئے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کیلئے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)، واٹر سیکٹر کیلئے مختص رقم 100 ارب روپے (11 فیصد) ہے۔توانائی کے شعبے کیلئے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے (کل مختص رقم کا 9 فیصد ہے)۔ فزیکل پلاننگ اینڈ ہاﺅسنگ (PP&H) کیلئے مجوزہ مختص رقم 43 ارب روپے یعنی کل مختص رقم کا 4 فیصد ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کی متوازن ترقی کیلئے 108 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جن میں سے 57 ارب روپے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع (NMDs) کیلئے، 32.5 ارب روپے AJ&K کیلئے اور 28.5 ارب روپے گلگت بلتستان کیلئے رکھے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں کی ترقی کو ملک کے دیگر علاقوں کے نزدیک لایا جا سکے۔ SEZs کی تیز رفتار تکمیل کی نگرانی اور سی پیک کے تحت منصوبوں کی بحالی۔ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے کیلئے تعمیرنو اور بحالی کیلئے ترتیب دیئے گئے فریم ورک (4RFs) کے تحت وضع کردہ حکمت عملیوں اور and Climate Change and Infrastructure and Exports, E-Pakistan, Equity and Empowerment (5Es Environment) پلانز کا نفاذ، سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں تعلیم بشمول اعلی تعلیم کیلئے 82 ارب روپے، صحت کے شعبہ کیلئے 26 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سائنس اور آئی ٹی کیلئے 34 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جبکہ پیداواری شعبوں (صنعت، معدنیات، زراعت) کیلئے 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ نوجوانوں کی فلاح، سپورٹس اور سکلز ڈویلپمنٹ کی طرف حکومت خاص توجہ دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو عملی زندگی کیلئے تیار کیا جا سکے۔ بلوچستان کے منصوبوں پر خصوصی توجہ تاکہ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت فرق کو ختم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کیلئے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں پن بجلی کا حصہ 25 فیصد ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اورمتبادل توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جا سکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری لانا بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ پی ایس ڈی پی میں زیادہ تر توجہ ترسیلی نظام کی بہتری، متبادل توانائی اور آبی وسائل کے استعمال میں اضافہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ (1200 میگاواٹ) کی تکمیل کیلئے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے موجودہ گرڈ سٹیشنز کی استعداد میں بہتری لانے کیلئے 5 ارب روپے، سکی کناری، کوہالہ اور Mahal ہائیڈرو پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 13 ارب روپے اور داسو ہائیدرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کیلئے 12 ارب روپے فراہم کئے گئے۔ اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کیلئے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ اسی طرح 2160 میگاواٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر تقریبا 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ دیگر اہم منصوبوں میں 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 4 ارب 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافہ کیلئے 4 ارب 45 کروڑ روپے او وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کیلئے 2 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔ ان منصوبوں سے زرعی شعبہ کیلئے پانی کی فراہمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے K-4 Greater Water Supply Scheme کیلئے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔شاہراہوں اور دیگر مواصلاتی سہولتوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ عوام کو مواصلات کی سہولت سے کسان کو منڈیوں تک رسائی ملتی ہے، صنعت و تجارت کو ترقی ملتی ہے اور لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار مہیا ہوتا ہے۔ ہماری حکومت نے پہلے بھی ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے میگا پراجیکٹ مکمل کئے جن سے لاکھوں لوگوں کو موٹرویز کی سہولیات میسر آئیں۔پاکستان ایس ڈی جیزکے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اگلے مالی سال میں اس مقصد کیلئے 90 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔ فاٹا اور پاٹا کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئینی تبدیلی کو موثر طور پر عملی جامہ پہنائے۔ ان علاقوں کے لوگوں کو 5 سال کیلئے ٹیکسوں سے استثنی دیا گیا تھا۔ یہ مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے جس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جا رہی ہے۔ تاجر برادری کے پرزور اصرار پر اورریٹیل سیکٹرکو ریلیف دینے کیلئے Tier-1 Retailersٹائر ون ریٹیلرز کی تعریفمیں کورڈ ایعیا کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔پرانی اور استعمال شدہ 1800 CC تک کی ایشین میک گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو Cap کر دیا گیا تھا۔ اب 1300 CC سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی Capping ختم کی جا رہی ہے۔ گلاس مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کی ڈیمانڈ پر Localized کو پروٹیکٹ کرنے کیلئے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔۔ ا سلام آباد کے وفاقی علاقہ میں Digital Payments کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے Restaurant Services پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے۔ افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کیلئے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاﺅنس کی صورت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ الاﺅنسز میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے،ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفراور رات کے قیام کیلئے ڈیلی الاﺅنس اورمائیلج الاﺅنس،ایڈیشنل چارج ،ڈیپوٹیشن الاﺅنس،اورڈرلی الاﺅنس۔سپیشل کنوینس الاﺅنس فار ڈس ایبل،کونسٹینٹ اتینڈنٹ الاﺅنس (ملٹری)،مجاز پنشنرز کا ڈرائیور الاﺅنس شامل ہیں ،سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12,000 روپے کی جا رہی ہے۔آئی سی ٹی کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔ای او بی آئی کی پنشن کو 8,500 سے بڑھا کر 10,000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ مقروض افراد کی بیواﺅں کی امداد کیلئے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے پچھلے دو ادوار کے بجٹ 1999-2000 اور 2017-18 میں Schemes کا اجرا کیا گیا تھا۔ مالی سال 2023-24 کے حوالے سے ایسی ہی سکیم House Building Finance Corporation کی مقروض بیواﺅں کیلئے متعارف کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت ان بیواﺅں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔سی ڈی این ایس کے شہدا اکاﺅنٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ مےں 200ارب روپے کے نئے ٹےکس لگائے ہےں جبکہ چندماہ پہلے منی بجٹ کے ذرےعے لگائے جانے والے 170ارب کے ٹےکسز کو آئندہ مالی سال کے دوران جاری رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ منی بجٹ مےں سگرےٹ ، بےورےجز، سٹےل ، درآمدی لگژری آئٹےمز اور آٹو موبائلز پر اضافی ٹےکس اور ڈےوٹےز عائد کی گئی تھےں۔ نئے لگنے والے ٹےکسوں مےں انکم ٹےکسوں مے ں 175ارب روپے اےف ڈی مےں 4ارب روپے سےلز ٹےکس مےں 22ارب روپے کے نئے ٹےکس اقدامات کےے گئے ہےں۔ جواہم اقدامات کےے گئے ہےں ان مےں توانائی کے بحران کے پےش نظر پاکستان سٹےنڈرڈ کوالٹی کنٹرول کے معےار پر پورا نہ اترنے والے بجلی کے پنکھوں پر 2ہزار روپے فی پنکھا فےڈرل اےکسائز ڈےوٹی لگائی گئی ہے جبکہ اےک غےر معےاری درآمدی پنکھوں کی مقامی سپلائی پر دو ہزار روپے فی پنکھا اےکسائز ڈےوٹی لگے گی بلبوں پر 20فےصد فےڈرل اےکسائز ڈےوٹی لگے گی فنانس بل کے تحت ترمےم کے تحت فاٹا اور پاٹا کے علاقوں مےں سےلز ٹےکس کی چھوٹ مےں اےک سال کی توسےع کردی گئی ہے برانڈ نےم اور ٹرےڈ مارک کے تحت فروخت ہونے والے کھانے کی مصنوعات پر سےلز ٹےکس کی چھوٹ کو ختم کردےا گےا ہے پلانٹ کے پرزہ جات آروےسٹرز ڈرائررز زرعی مصنوعات پلانٹرز پر سےلز ٹےکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے پاکستان سافٹ وےئر بورڈ کے پاس رجسٹرڈ آئی ٹی کے برآمد کنندگان کو آئی ٹی آلات کی درآمد پر چھوٹ دے دی گئی ہے آئی ٹی کی انڈسٹری کو فروغ دےنے کے لےے آئی ٹی اےکسپوٹر جو اےک سال کے اندر جتنی برآمدات کرے گا اس کے اےک فےصد کے مساوی ڈےوٹی فری سامان منگواسکے گا ملک کے اندر اےک کرنسی لانے کی شرط کو روپے کے بدلے ڈالر سے بدل دےا گےا ہے اب اےک لاکھ لانے کی اجازت ہو گی روشن ڈجےٹل اکاونٹ کے زرےعے پاکستانی پراپرٹی خرےدنے کے لےے جو رقوم بےھجتے تھے ان پر دو فےصد انکم ٹےکس عائد تھا اسے ختم کردےا گےا ہے بلڈرز کو بھی سہولت دی گئی ہے بلڈرز جو بھی تعمےر کرے گا تےن سال کی معےاد مےں اپنے ٹےکس کے دس فےصد ےا پچاس لاکھ روپے مےں سے جو کم ہو اس مےں اپنی ٹےکس کی ذمہ داری مےں دس فےصد کمی کرنے کی سہولت پائے گا ےہ سکےم ےکم جولائی 2023سے شروع ہوگی جو نوجوان کاروبار شروع کرےں گے اور ان کی عمر 30سال سے کم ہوں اور ان کے ڈائرےکٹر ز کی بھی اگر عمرےں 30سال سے کم ہوں ان کو اپنے منافع پر ٹےکس مےں پچاس فےصد کی رعاےت ملے گی اور پبلک لسٹڈ کمپنےوں کے لےے کم ازکم ٹےکس کا رےٹ 1.25سے کم کرکہ 1فےصد کردےا گےا ہے دےہی علاقوں مےں اےگر و بےسڈ نئی صنعت لگانے پر پانچ سال کا ٹےکس ہالےڈے عائد کےا گےا ہے لنڈے کے کلاتھ پر دس فےصد آر ڈی کو ختم کردےا گےا ہے بیٹریوں سولر سسٹم کی 44ٹےر ف لائنز مےں مےنو فےکچر نگ کے لےے مشےنری کی درآمد ، سولر پےنل خام مال اور آلات کی درآمد پر ٹےکس ختم کردےا گےا ہے انڈسٹرےل آو ٹ پٹ کی دس ٹےرف لائنز مےں درآمدات پر ٹےکس کی شرح کو کم کےا گےا ہے ڈائپرز ، سنےٹر ی خام مال کی درآمد پر ڈےوٹی مےں چھوٹ دے دی گئی ہے رائس مل مشےنری ، مائننگ مشےنری ٹولز ، اور بےجوں کی درآمد ،جھےنگوں اور ان کی افزائش کے لےے ان کی درآمد پر کسٹم ڈےوٹی ختم کردی گئی ہے آئی ٹی سے متعلق آلاٹ کی درآمد کی ڈےوٹی کو بھی ختم کردےا گےا ہے ادوےات کے سےکٹر مےں کےنسر کے علاج کی تےن ادوےات پر دوفےصد کسٹم ڈےوٹی ختم کردی گئی ہے کسٹم کے قانون مےں تبدےلی کرکہ کنٹےنرز کے اندر انوائس کی عدم موجودگی پر لگنے والے جرمانے کو ختم کردےا گےا ہے بانڈڈ وےئر ہاوس مےں جلد خراب ہونے والی اشےاءکی وےئر ہاوسنگ کی معےاد اےک ماہ سے بڑھا کر تےن ماہ کردی گئی ہے سمگلنگ کی روک تھام کے لےے اب خاصہ داروں اور لےوےز کو بھی اختےار دے دےا گےا ہے الےکٹرک پاوور ٹرانسمےشن کی سروسز پر 15فےصد ٹےکس لگادےا گےا ہے آئی ٹی کے کنسلٹنٹ پر ٹےکس کی موجودہ شرح 16سے کم کرکہ 15فےصد کردےا گےا ہے سپر ٹےکس کو جاری رکھا گےا ہے جبکہ اس مےں تےن نئے سلےبز متعارف کروائے گئے ہےں جو 35سے 40کروڑ ، 40سے 50اور 50سے زائد ان پر بالترتےب چھ ، آٹھ اور دس فےصد سپر ٹےکس لگے گا ۔کمرشل امپورٹرز پر ود ہولڈنگ ٹےکس مےں 0.5فےصد کا اضافہ کےا گےا ہے نان فائلرز کو کمپنےوں کی طرف سے بونس شےئرز جاری کرنے پر دس فےصد ود ہولڈنگ ٹےکس لگے گا نان رےزڈننٹ کو بےرون ملک ڈےبٹ ےاکرےڈٹ کارڈ کی ادائےگی پر ٹےکس کو بڑھا ےا گےا ہے ےہ فائلرز کے لےے اےک سے پانچ اور نان فائلرز کے لےے پانچ سے دس فےصد کردےا گےا ہے خارجی عوامل کی وجہ سے کسی فرد ےا افراد کی آمدن ےا منافع مےں غےر معمولی اضافہ پر اضافی ٹےکس عائد ہو گا نان رےذےڈنٹ کواےگزمےشن سرٹےفکےٹ تےس دن مےں جاری کردےا جائے گا اےس اےم ای مےں رعاےتی شرح ٹےکس سے استفادہ کرنے مےنو فےکچر نگ کی ٹرن اوور کو 25کروڑ سے بڑھا 825کروڑ روپے کردےا گےا ہے ۔چےئرمےن اےف بی آر نے مےڈےا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ رےئٹےلرز کی ٹےئر ز ون کے پی او اےس سسٹم سے منسلک ہونے کے لےے رقبہ کی شرط کو اس لےے ہٹاےا گےاہے کہ اس کی وجہ سے تنازعہ رہتا تھا جبکہ ٹےئرز ون سے باقی شرائط برقرار رہےں گی اور اس مےں ہم رجسٹرےشن جاری رکھےں گے۔