اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کریں۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے زیر اہتمام اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان، تصدق حسین جیلانی کی جانب سے 19 جون 2014 کو جاری کردہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کی مناسبت سے کانفرنس بعنوان" آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 / مذہبی آزادی کے عملدرآمد میں مشکلات " کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین اور شرکاء نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے فقدان پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے موثر اور سنجیدہ اقدامات کریں۔ کانفرنس میں معروف وکلائ، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے ماہرین بشمول پیٹر جیکب، فرحت اللہ بابر، ڈاکٹر اسلم خاکی، ڈاکٹر عبد الحمید نیئر، شفیق چوہدری، نسرین اظہر، طاہرہ عبداللہ، ضیغم خان اور نبیلہ فیروز بھٹی نے بطور مقررین شرکت کی۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ گزشتہ نو سالوں میں عدالتی احکامات پر تعمیل کی شرح 25 فیصد سے نہیں بڑھ سکی۔ عدالت عظمیٰ نے 2014 میں منظور کیے گئے سات احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے89 اضافی احکامات جاری کیے، تاہم پالیسی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ حکومت کو عدالتی احکامات پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس عدالتی فیصلے میں مجموعی گورننس کو بہتر بنانے اور ادارہ جاتی خرابی کو دور کرنے کی صلاحیت ہے۔ عدالتی فیصلے میں تمام شہریوں کے حقوق کی مساوات پر زور دیا گیا ہے، اس لیے مساویانہ پالیسیاں متعارف کروانے کے لیے فیصلے کی تعمیل کو ایک اہم مقصد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ریاستی ڈھانچہ مذہب کی بنیاد پر تعصبات کو فروغ دیتا ہے جس کی عکاسی آئین پاکستان میں امتیازی دفعات سے ہوتی ہے جو اکثریت اور اقلیتی شہریوں کے حقوق میں عدم مساوات کا باعث بنتی ہے۔ یہ مایوس کن ہے کہ حکومتیں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں جیلانی فیصلے پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے کمیشن کے قیام کے لئے بلا تاخیر بل منظور کرنے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس