ہیومن رائٹس کے علمبردار ایک برطانوی نژاد امریکی اٹارنی آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں تاکہ ڈاکٹر عافیہ کے لیے وہ اپنی کوششوں کو پاکستانی پریس اور پبلک کو بتاسکیں اور عافیہ کی نجات کا کوئی بندوبست کرسکیں۔ انھوں نے ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں جس صورتحال سے دوچار دیکھا وہ ان کے یقین اور برداشت سے باہر تھا ، اس لیے وہ غیر ملکی ہونے کے باوجود ایک بے بس اور بے گناہ دختر پاکستان کے لیے باہر نکل پڑے ۔
ڈاکٹر سمتھ کو میرا سلام۔ قارئین نے شاید میرا انگریزی کا کالم جو عافیہ صدیقی کی زندگی، اس پر بنے کیس اور اس کیس کے امریکی عدالتی فیصلے پر مبنی تھا ’پاکستان آبزرو‘ میں پڑھا ہوگا۔ آج اردو میں کالم اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ امریکہ کی متعصبانہ ذہنیت کو جان سکیں۔ میں اردو میں اپنے کالم لکھنا چاہتی تھی اور اپنی زبان میں لکھنے سے مجھے تسکین بھی زیادہ ملتی ہے اور اب اس لیے میں کافی دیر سے اردو میں بھی کالم لکھ رہی ہوں۔
دراصل میں نے 1998ءسے انگریزی کالم اس لیے لکھنے شروع کیے کہ اس وقت امریکا بہادر انسانی حقوق کا علم اٹھائے اسلامی ملکوں میں گھسا ہوا تھا، اس لیے ضروری سمجھا کہ ان کے تمام اعمال بد کی کہانی انھی کی زبان میں لکھی جائے۔ میں نے بڑی محنت اور بے خوفی سے ان دنوں دھڑادھڑ انگریزی اخباروں میں کالم لکھے اور ان کے گربیان کھولے تاکہ وہ ان میں جھانک سکیں۔ میں خوفزدہ بھی تھی لیکن چالبازی سے مجھے امریکن ہسٹری پر کچھ کتابیں بھیجی گئیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کہتی ہیں آج سے 14،15 سال پہلے مجھے میرے 3معصوم بچوں سمیت اغوا کیا گیا تھا میں امریکا کی برنیڈی یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ یافتہ فل برائیٹ سکالر ہوں۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقابلہ نیورو کوگنیٹیو سائنس تھا مگر خود ساختہ اور جھوٹ پر مبنی حیرت انگیز الزامات لگا کرمجھے امریکا کی سیکرٹ جیل میں رکھا گیا۔ مجھے جس جسمانی، ذہنی، روحانی اور نفسیاتی اذیتوں سے گزارا گیا شاید بہت کم لوگ اس کا تصور کرسکیں کیونکہ موت کئی بار مجھے چھو کر نکل گئی۔ مجھ پر ناقابل یقین الزامات یہ ہیں کہ میں نے 4امریکی شہریوں کو رائفل 4ایم سے قتل کیا اور میں امریکا کی جن اہم ترین عمارتوں کو نشانہ بنانا چاہتی تھی ان میں بروکلے برج، ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اور مجسمہ¿ آزادی اور بم بنانے کے نسخہ جات وغیرہ۔
عدالت کے فیصلے میں یہ حیران کن وضاحت کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کی سزا اسی لیے بحال رکھی جارہی ہے کیونکہ اس کے دماغ میں امریکا کیلئے بے حساب نفرت ہے اور وہ کسی بھی وقت اپنے دہشت گردی کے اقدامات سے امریکا کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی ڈیفنس وکیل لینڈا مورن اور چارلس سویفٹ نے کورٹ روم سے نکلتے ہی کہا عدالت کا یہ فیصلہ Facts vs Fearپر مبنی ہے۔ ان دونوں نے انتہائی اداس لہجے میں کہا یہ متعصبانہ فیصلہ ہے ہم اس سے کسی صورت اتفاق نہیں کرتے، امریکی جیورسٹ سسٹم پر آج ہمارا اعتماد ٹوٹ گیا ہے لیکن ہم اپیل میں جائینگے۔ انھوں نے کہا تمام عدالتوں کیلئے یہ حیرت کی بات ہوگی کہ امریکا نے ایک خاتون کو Would be terroristجیساالزام لگا کر اسے سالوں سے قید کر رکھا ہے، ہم صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ہماری امریکن عدالتوں میں مسلمانوں ملزموں کو کبھی بھی انصاف نہیں مل سکتا، کیا یہ ہماری عدالت کا متعصبانہ سلوک نہیں ہے کہ ہماری کلائینٹ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی Procedings کے وقت کسی بھی مسلمان میڈیا، لوگوں کو احاطہ عدالت کے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری کسی بھی حکومت نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طورپر اپنے ملک کی ایک بیٹی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا اور اسے دشمنوں کے گھر لاوارث چھوڑ دیا ہے۔رسم زمانہ اور اخلاقی روایات کو بھی دیکھا جاتا تو جب کسی معمولی گھر کی بیٹی بھی اغوا ہوتی ہے تو سارا کنبہ قبیلہ اکٹھا ہوجاتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اس بہن یا بیٹی کوواپس نہ لے لیا جائے چاہے اغواکندگان کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں مگر ایک انتہائی قابلِ فخر دختر ِ پاکستان کے اغواپر پورا پاکستان جو عافیہ کا کنبہ قبیلہ تھا چپ چاپ آنکھوں پر پٹی باندھ کر کنارہ کش ہوگیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ امریکا بہادر ہمارے لیے ایک Exacting Masterکے رول میں رہا ہے کیونکہ وہ پاکستان کے شہنشاہوں کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے کی طاقت رکھتا ہے، اور ہم بعض صریح اور واضح بے انصافیوں پر بھی اسے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سچائی کہنے کی جرا¿ت ہمارا مذہبی ورثہ ہے بار بار کلمہ حق کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بہر حال میری آخری سطور ڈاکٹر عافیہ کیلئے ہیں۔ عافیہ تم نے جس حوصلے اور ثابت قدمی سے اپنے مذہب کی مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا ہے تم خسارے میں نہیں ہو اس قید تنہائی نے تمھاری مذہبی صلاحیتوں اور قوتوں نے تمھیں جس طرح اپنے خدا سے رابطے دیے ہوں گے وہی تمھاری عمر بھر کی کمائی ہے۔ اذیت اور بے بسی کے لمحوں میں میرے خیال میں تم نے جتنی روحانی منازل طے کر لی ہوں گی وہ آئندہ زندگی میں بھی تمھیں منافع ہی دیں گی۔ باد مخالف ہمیشہ اونچائی کی اڑان عطا کرتی ہے۔ امریکا کی Manhattan Federal Court نے تمھاری سزا بحال رکھی ہے مگر تمھارا ایمان محکم ہونا چاہیے کہ ہمارے خدا نے ایک اپنی سپریم کورٹ بنائی ہوئی ہے جس میں بے انصافی کا کوئی باٹ نہیں ہے، وہ ترازو اتنے توازن میں استوار کھڑا ہے کہ اسے کوئی بڑے سے بڑا طوفان بادویاراں بھی بے توازن نہیں کرسکتا۔ اللہ تمہارا نگہبان ہے اور ہوگا۔
ڈاکٹر عافیہ کے لیے غیر ملکی وکیل کی جدوجہد
Jun 10, 2023