جناب مجید نظامی اور میرا شوق ِ نَے نوازی

معزز قارئین!مَیں کئی بار اپنے عظیم قائد ”مفسرِ نظریہ‘ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی کی سالگرہ (3 اپریل 1928ء) اور یوم وِصال (26 جولائی 2014ئ)کے بارے کالم لکھ چکا ہوں اور ان کی عظمت بیان کرتے ہوئے کئی نظمیں بھی شامل کر چکا ہ±وں لیکن آج مَیں اپنے پیارے پاکستان کے بارے کیوں ”احساس کمتری“ کا شکار ہوگیا ہوں۔ بہرحال میرے اِس کالم کوجنابِ مجید نظامی اور میرا شوقِ نَے نوازی ہی سمجھیں۔ 
معزز قارئین! علاّمہ اقبال نے اپنے کمالِ شاعری کو ”نَے نوازی“ قرار دِیا تھا۔ مَیں اِسے اپنا ”شوق نَے نوازی“ سمجھتا ہوں۔ ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دَوران میں مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے۔ ایک ترانہ ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہو رہا تھا، جس کا عنوان، مطلع اور ترانہ ملاحظہ فرمائیں .... 
”اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!“
....O....
” ز±ہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
.... O....
یوں ح±سنِ لازوال سے، رَوشن ہیں بستیاں!
جیسے کہ آسمان سے، ا±تری ہو کہکشاں!
تیرے فلک کے، چاند ستاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
....O....
مٹی کا تری رنگ، زَر و سیم کی طرح!
دریا رَواں ہیں، کوثر و تسنیم کی طرح!
جنت نشان، مست نظاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
.... O ....
د±نیا میں بے مثال ہیں، ارباب فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہ±وئے، صف شکن ترے!
شاہ راہ حق کے، شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!
.... O ....
پھیلے ہ±وئے ہیں، ہر سو وفاﺅں کے سِلسلے!
ماﺅں کی پر خ±لوص د±عاﺅں کے سِلسلے!
مضبوط، پائیدار، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
.... O ....
معزز قارئین ! مختصر بیان یہ ہے کہ ” یکم نومبر 1971ءکو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ ”پنجاب“ اور 11 جولائی 1973ءکو روزنامہ ”سیاست“ جاری کِیا۔ پھر میری جنابِ مجید نظامی سے اسلام آباد اور لاہور میں صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کی "Briefings" میں ملاقاتیں ہونے لگیں اور "A.P.N.S" کی "Meetings" میں بھی۔ مئی 1991ء سے مَیں نے اپنا کالم ”سیاست نامہ“۔ ”نوائے وقت“ میں شروع کِیا جو ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ ستمبر 1991ءمیں مجھے (”نوائے وقت “ کے کالم نویس کی حیثیت سے) صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہ±وئی۔ یقینا اِس کا کچھ نہ کچھ ثواب تو جنابِ مجید نظامی کو ضرور ملا ہوگا؟“
”قائداعظم کا سوہنا شاہکار ،حمید نظامی !“ 
معزز قارئین! 25 فروری 1993ءکو جنابِ حمید نظامی کی 31 ویں برسی کے موقع پر جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں ”قائداعظم کا س±وہنا، شہکار، حمید نظامی تھے!“کے عنوان سے نظم پڑھی جس کے تین شعر پیش خدمت ہیں ....
” حق گوئی، بیباکی سے، سَرشار حمید نظامی، تھے!
بزم میں، رزم میں، مردِ طرح دار، حمید نظامی، تھے!
.... O ....
ہر جابر س±لطان کے سامنے کلمہ حقّ بلند کِیا!
کانگریسی م±لّاﺅں سے، ستیزہ کار ، حمید نظامی تھے !
.... O ....
ساری ع±مر مجید نظامی، حقّ کے ، عَلم بردار رہے!
جیسے سچّائی کے قَلم بردار حمید نظامی، تھے! “
.... O ....
” شا عرِ نظریہ پاکستان ! ‘ ‘ 
20 فروری 2014ءکو ” ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ لاہور میں چھٹی سہ روزہ ”نظریہ پاکستان کانفرنس “ کےلئے مَیں نے سیکرٹری ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا جسے نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے کمپوز کیا اور دی کازوے سکول کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا، مجھے جناب نظامی نے نظریہ پاکستان شیلڈ سے نوازا اور ”شاعر نظریہ پاکستان“ کے خطاب سے بھی۔ ملّی ترانے کا مطلع اور سات شعر یوں ہیں....
”پیارا پاکستان ہماراپیارے پاکستان کی خیر !
.... O ....
پیارا پاکستان ہمارا پیارے پاکستان کی خیر !
پاکستان میں رہنے والے، ہر مخلص انسان کی خیر!
.... O ....
خوابِ شاعر مشرق کو شرمندہ تعبیر کیا!
روزِ قیامت تک ، کردار قائد والا شان کی خیر!
.... O ....
جدّوجہدِ مادرمِلّت لاثانی اور لافانی!
مادرمِلّت کے سارے، فرزندوں کے اَوسان کی خیر!
.... O ....
اسلامی، جمہوری، فلاحی بنے، ریاست پاکستان!
قائداعظم کی خواہش کی، ا±ن کے ، اس اَرمان کی خیر!
.... O ....
ع±مر خضر عطا کر مولا! اپنے مجید نظامی کو!
وارثِ نظریہ¿ پاکستان کے جذبہ ایمان کی خیر!
....O ....
خِطّہ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد!
قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ، بلوچستان کی خیر!
....O ....
”پاکستان کی شَہ رگ ہے کشمیر“ بقول بابائے قوم!
اپنے ع±دو سے، چھڑا کے رہیں گے، شَہ رگ پاکستان کی خیر!
....O....
”....صحافت کا مہر عالم تاب ! “ 
3 اپریل 2014ءکو” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے چیف کوآرڈینیٹر فارق الطاف اور سیکرٹری جنرل سیّد شاہد رشید اور دوسرے عقیدت مندوں اور دوستوں کے اصرار پر جنابِ مجید نظامی نے پہلی بار دھوم دھڑکے سے اپنی سالگرہ کی اجازت دِی تو مَیں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہ±وئے ایک نظم پیش کی جس کے صرف دو بند پیش کر رہا ہ±وں ....
”سجائے بَیٹھے ہیں محفل خلوص کی احباب!
کِھلے ہیں رنگ برنگے محبّتوں کے گلاب!
بنایا قادرِ مطلق نے جِس کو عالی جناب!
چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب !
....O....
خ±وشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر س±و!
ہے فکرِ قائد و اقبال کی نگر نگر خ±وشب±و!
اثر دعا ہے کہ ہو ارضِِ پاک بھی شاداب!
چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب !“ 
....O....
”وِصال پ±ر ملال !“ 
معزز قارئین ! 26 جولائی 2014کو جنابِ مجید نظامی کا وِصال ہ±وا تو میری نظم کا یہ شعر تھا کہ ....
” رَواں ہے چشمہ ن±ور کی ص±ورت،
ہر س±و ا±ن کی ذاتِ گرامی!
جب تک پاکستان ہے زندہ،
زندہ رہیں گے مجید نظامی!“
.... O ....

ای پیپر دی نیشن