استحکام پاکستان پارٹی کا ’’ ظہور‘‘

انتظار سحر …جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com

قومی اور سیاسی منظر نامے پرایل نئی جماعت کا اعلان ہوچکا جس کے  پر تکلف عشائیہ میں 98 اراکین اسمبلی شریک تھے جس میں سب سے زیادہ تحریک انصاف کے بڑے  عہدوں پر فائز رہنے والے وزرا ، انتخابی گھوڑوں، سرمایہ اور جاگیر داروں اور بڑی کاروباری شخصیات شامل تھی انکے چہرے اور چال ڈھال با اعتماد تھی۔کچھ ایسے سیاست دان بھی تھے جو کل تک ملک میں انقلاب لا رہے تھے۔پھر حالیہ سیاسی موسم میں تحریک انصاف کے عہدوں اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا پھر یکایک ایسا کیا ہوا کہ سب لوگ جہانگیر ترین اور استحکام پاکستان پارٹی کی سیاسی چھتری تلے یک زبان ہو گئے؟جس ملک میں پاور پلیٹکس ہوتی ہے۔ جس میں لوگوں کے نظریات طاقت اور اختیار کے غلام بن جائیں تو ایسی پارٹیاں ملک میں بنتی اور بنائی جاتی ہیں۔ جس میں پارٹی کا ووٹ بنک  اور الیکٹیبلز ( انتخابی گھوڑے) کا ووٹ بنک ملکر کامیاپی حاصل کرتے ہیں پھر ملکر اقتدار کیے مزے لیتے ہیں اس میں غیر سیاسی ریاستی ادارے بھی اپنا خوب کردار ادا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی سوچ اور نظریہ پاور پالیٹکس کا ہم خیال ہوتا ہے۔لیکن کرشمہ ساز کی   سیاسی جمع تفریق اور ضرب تقسیم  کا فی الحال کوئی مقابلہ نہیں ۔کرشمہ ساز  سے مراد ان ہی کی جو میری بات پڑھ کر آپکے دل و دماغ میں آئی۔سیاسی جماعتوں کی جمع تفریق اور ضرب تقسیم انکا مقابلہ نہیں کر سکتی۔اس کی بڑی  وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمعوریت اور احستاب کا فقدان ہے۔ ۔ہمارے ملک میں  حصول اقتدار کے لئے سیاستدان پارٹیاں بدلتے  رہتیتھے۔ بدل رہے ہیں۔یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔اب یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ گندم کاشت کریں اور  ( جو) کاٹیں۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔جن سے ساز باز کر کے اقتدار میں آکر سچ مچ خود ک وزیر اعظم سمجھنے لگتے ہیں ۔اس طرح نہ کبھی دنیا میں تبدیلی آئی ہے نہ انقلاب آی?۔اس ضمن میں استحکام پاکستان پارٹی ملک کی پاور پالیٹکس کا جگمگاتا چہرا ہے۔سیاست سے نا اہل آدمی نئی پارٹی کا سرپرست اعلیٰ ہے۔ابھی پارٹی کا صرف اعلان ہوا ہے۔آئین اور منشور کا پتہ نہیں ۔ان میں اکثر لوگ اقتدار میں رہے۔تب انکی کارکردگی قابل ذکر نہیں ۔یہ لوگ جو کل تک ملک میں انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لئے جہادی جذبہ لے کر میدان عمل میں سر پھٹ  گھوڑے کی طرح دوڑ رہے تھے۔آج وہ ملک میں کیسا استحکام لائیں گے۔عوام نے نئی پارٹی کے اعلان پر  خوشی کا اظہار نہیں کیا۔عوام کی سوچ کو لاٹھی سے دبانے پر مجپور کیا گیا۔ریاست کے ساتھ ٹکراؤ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ٹھیک کیا جاتا ہے۔ٹھیک کرنے کے لئے  پارلیمنٹ کے اندر موجود جماعتوں میں نظریاتی اختلاف کے باوجود  ملکی مفاد میں ہم آہنگی ہو۔ لیکن عقل اور چھوٹی سوچ کی لیڈرشپ نے ڈائیلاگ کا راستہ نہیں اپنایا۔جس سے ان محترم و۔مکرم حضرات کو  موقع ملا جس کے ہاتھ میں گیم ہے۔میں بات کررہا تھا کہ پارٹی ووٹ بنک اور انتخابی گھوڑے کے ووٹ بنک میں اصل جمع تفریق اور ضرب تقسیم کا کھیل کھیلنے والوں کے پاس ہمیشہ ہوم گراؤنذ اور ایمپائر وافر مقدار میں رہے ہیں۔مثال کے طور پر  جنوبی پنجاب کے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے حلقے میں کاسٹ  ہونے والے ووٹوں کی  تعداد بلفرض ایک لاکھ ہے۔جس میں پچیس ہزار ووٹ بنک ن لیگ کا ہے۔دس ہزار ووٹ  پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں کا ہے۔پچیس  ہزار ووٹ بنک  انتخابی گھوڑے کی جیب میں  ہے۔ یہ ایک لاکھ میں سے ساٹھ ہزار ووٹ بنتے ہیں۔پاقی چالیس ہزار ووٹ بنک تحریک انصاف کا ہے۔مجھے کوئی اتنا سمجھا دے کر پچیس ہزار ووٹ ں لیگ کا ہو ۔پچیس ہزار ووٹ انتخابی گھوڑے کا ہے ۔انتخابی گھوڑا اور ن لیگ آپس میں مل جائیں تو ووٹوں کی تعداد پچاس ہزار ہو جائے گی۔تحریک انصاف کا چالیس ہزار ووٹ برقرار بھی رہے جس میں کوئی کمی بھی نہ ہو۔کون جیتے گا؟ بدقسمتی سے پاور پالیٹکس کی گنگا میں سب ہاتھ دھوتے  رہے ہیں۔کون سب ہاتھ دھوتے اب یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے؟
ایسے ہوتا رہا اقتدار کے لئے  پارٹیاں بنتی رہی ہیں۔ایسے سیاسی کھیل میں کوئی اصول کوئی قانون کہیں نظر نہیں آتا۔ناداں اقتدار کی دوڑ میں عوام کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی سوچ کا ادراک نہیں کر رہے۔اپنی روش بدلتے ہیں نہ اپنا مزاج بنتے ہیں۔ گویا یہ کہنے میں  میں حق بجانب ہوں کہ معاشرے کے وجود میں کرپشن ناسور بنکر سرایت کر چکی ہے۔جس کا علاج نہیں پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔ورنہ ملک کے معاشی،سیاسی حالات کچھ اچھے نہیں ۔ملک کی ڈھولتی کشتی کو صرف ڈائیلاگ اور از سر نو میثاق جمعوریت کی ضرورت ہے۔جس میں تحریک انصاف بھی شامل ہو۔ریاست پاکستان میری  رڈ لائن ہے ۔ جس  کو ڈرا دھمکا اور نامناسب القابات کے ساتھ دبایا جائے۔ یہ بات  مسلہ کو حل کرنے کی بجائے مسلہ کو اور خراب کرے گی۔ سیاست میں ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اکثریث حاصل کرے۔ یہاں پہلے ہدف کو حاصل کرنے سے پہلے ہی دما دم مست قلندر کی کوشش کی گئی۔بے وقت کی راگنی الاپی گئی۔پہلے پہلا ہدف حاصل کرنا ہوتا ہے پھر بتدریج ریاست کے اندر خامیوں اور کمزوریوں کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔کاش سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ملکی مفاد کی خاطر معاملے کی نذاکت کو سجھا ہوتا ۔تو یہ نہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ملک کی اس حالت کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ نہیں ۔ پاور پالیٹکس کا  ہر دلدادہ اور داعی ہے۔اس جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی سیاست کے اعداد و شمار لیڈر بنانے اور گرانے کے کافی ہیں۔اس کھیل کے کرداروں کو اب عوام سمجھ گئی۔لیکن یہ کردار قوم کے دامن میں چھپی چنگاری کا احاطہ نہیں کر پا رہے۔ملک کو نازک ترین معاشی ،آئینی اور سیاسی بحران سے سب ملکر باہمی احترام اور اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر نکال  سکتے ہیں۔جس کے لئے  عدم تشدد اور برداشت  کا رویہ اپنانا ہوگا۔استحکام پاکستان پارٹی کی حقیقت اور عزائم بھی جلد سامنے آجائیں گے۔یہ سب متفرق الخیال لوگوں کو کس نے اکھٹا کیا یا اچانک ان کو استحکام پاکستان کا خواب آیا۔اور سب سچے دل سے پاکستان کے  استحکام کے لیے کمر بستہ ہو گئے !! اس سوال کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں ؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن