فیصل آباد (ندیم جاوید) پی ٹی آئی فیصل آباد کے رہنما و ٹکٹ ہولڈرز پارٹی چھوڑنے میں ایک دوسرے کو مات دے رہے ہیں۔ 2018ءمیں ہونے والے عام انتخابات کے تمام بڑے نام پی ٹی آئی سے الگ ہوچکے۔ اور مقامی سطح پر پی ٹی آئی کو اپنی سیکنڈ یا تھرڈ لیڈرشپ میدان میں اتارنا پڑے گی۔ جس سے آمدہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو بہت بڑا دھچکا لگے گا اور انتخابی نتائج پارٹی کیلئے حوصلہ افزا نہ ہونے کا امکان ہے۔ تفصیل کے مطابق گزشتہ الیکشن میں فیصل آباد سے ٹکٹ ہولڈرز کی بڑی تعداد بھی دوسری جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ فیصل آباد کے اہم حلقے این اے 110جو اب 104بن چکا ہے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے راجہ ریاض احمد تحریک عدم اعتماد کے وقت ہی عمران خان سے راہیں جدا کرگئے تھے اور متوقع طور پر وہ اسی حلقے سے ن لیگ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت ہی کپتان کا ساتھ چھوڑنے والے نواب شیر وسیر این اے 102 سے جیتے تھے جو اب این اے 96بن چکا ہے۔ وہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے رکن اسمبلی بنے تھے مگر 2013میں طلال چوہدری سے ہار گئے تھے۔ اب متوقع طور پر اسی حلقے سے انہیں ن لیگ کا ٹکٹ ملنے کی شنید ہے۔ نواب شیر وسیر حلقے میں وسیع ووٹ بنک رکھتے ہیں اور 2018کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر بھی ان کے جیتنے کے چانسز تھے لیکن پیپلزپارٹی کا ٹکٹ آخری لمحات میں واپس کرکے وہ کپتان کے ہم رکاب ہوگئے تھے۔ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے سابق رکن قومی اسمبلی خرم شہزاد صنعتکار ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کے دور حکومت میں ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر ن لیگ کے امیدوار کو ہرایا تھا اور رکن پنجاب اسمبلی بنے تھے۔ 2018 کے الیکشن میں انہوں نے این اے 107 سے ن لیگ کے امیدوار اکرم انصاری کو 20ہزار سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی تھی۔ اس سے قبل اکرم انصاری اس حلقے سے مسلسل چھے مرتبہ ایم این اے بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے این اے 109 کے سابق ایم این اے فیض اللہ کموکا اپنے حلقے میں وسیع ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ وہ اس سے قبل اسی علاقے سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بن چکے ہیں۔ جبکہ گزشتہ سات سال سے پی ٹی آئی ویسٹ پنجاب ریجن کے صدر اور پارٹی میں اہم فیصلہ ساز شخصیت تھے۔ ان کے پارٹی بدلنے سے پی ٹی آئی کو بھاری نقصان کا سامنا ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے والے ایم این اے عاصم نذیر گزشتہ الیکشن میں آزاد حیثیت سے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام رسول ساہی کو ہرا کر کامیاب ہوئے اور جہانگیر ترین کی کوششوں سے عمران خان کے ہم رکاب ہوگئے تھے۔ عاصم نذیر فیملی کا علاقے میں وسیع ووٹ بنک ہے اور آمدہ الیکشن میں وہ جس بھی پارٹی کے امیدوار ہوئے اچھی پوزیشن میں ہوں گے۔ نذیر فیملی سیاست میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ رہتی ہے۔ خود عاصم نذیر ق لیگ میں بھی گئے اور ن لیگ کا سفر کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں گئے تھے۔ ان کے بھائی زاہد نذیر ن لیگ سے ق لیگ میں گئے تھے مگر2009 میں واپس ن لیگ میں آگئے اور ابھی تک ن لیگ کا ہی حصہ ہیں۔ انکے ایک بھائی شاہد نذیر 1993سے پیپلزپارٹی میں ہیں۔ 2002 اور 2008 کے الیکشن میں وہ پی پی پی میں سرگرم ہوئے تاہم 2013میں خاموش ہو کر بیٹھ گئے تاہم انہوں نے پی پی پی کو خیرباد نہیں کہا۔ 2018 کے الیکشن میں رانا ثناءاللہ سے ہارنے والے پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر نثار احمد نے ابھی تک پارٹی کو خیرباد نہیں کہا تاہم ان کے بارے میں خبریں یہی ہیں کہ وہ کسی بھی وقت کپتان کو چھوڑ دیں گے اور انکی اگلی منزل پیپلزپارٹی بتائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نثار اسی حلقے سے 2002 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب بھی ہوچکے ہیں تاہم بعد ازاں وہ پیٹریاٹ، ق لیگ اور ن لیگ سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی میں گئے تھے۔ ڈاکٹر نثاراحمد پی پی پی کے سابق ایم این اے چوہدری الیاس جٹ کے داماد ہیں اور حلقے میں اس فیملی کا وسیع اثرورسوخ اور ووٹ بنک ہے۔ حلقے کے ذیلی صوبائی حلقوں کے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر رانا آفتاب احمد اور ندیم آفتاب سندھو کا فیصلہ بھی جڑا ہوا ہے ممکنہ طور پر وہ بھی ڈاکٹر نثار کے ساتھ ہی پارٹی چھوڑ دیں گے۔ پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر چوہدری ظہیرالدین باضابطہ اعلان کئے بغیر ہی پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔ انکے بھائی سابق ایم پی اے علی اختر نے پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ دونوں بھائی ممکنہ طور پر پی پی 99 اور پی پی 100 سے دوبارہ ایم پی اے کے امیدوار ہوں گے۔ چوہدری ظہیرالدین جڑانوالہ سے ایم این اے کا الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں۔ فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما افضل ساہی اور انکے صاحبزادے علی افضل ساہی نے ابھی تک پارٹی کو خیرباد نہیں کہا تاہم اطلاعات انکے حوالے سے یہی ہیں کہ کسی بھی وقت انکی پریس کانفرنس ہوسکتی ہے۔ جھمرہ کے علاقے میں ساہی فیملی کا کافی اثرورسوخ اور ووٹ بنک ہے اور ممکنہ طور پر وہ جس بھی پارٹی کی طرف سے امیدوار ہوئے جھمرہ کی ایم این اے کی ایک اور ایم پی اے کی دونوں سیٹوں سے امیدوار ہوں گے۔ گزشتہ عام انتخابات میں رانا ثناءاللہ کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر شکست دینے والے وارث عزیز کو خود پارٹی نے حالیہ پنجاب اسمبلی الیکشن کے وقت چھوڑ دیا تھا اور انکی جگہ پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے حاجی اسماعیل سیلا کو ٹکٹ دیدیا تھا۔ وارث عزیز پی ٹی آئی سے لاتعلقی کرچکے اور کسی بھی وقت وہ کسی دوسری پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔ جبکہ ٹکٹ پانے والے اسماعیل سیلا کے بھی کپتان کی ہمراہی چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے شکیل شاہد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں تاہم انہیں حالیہ پنجاب اسمبلی الیکشن کے وقت ہی پارٹی نے فراموش کرکے ٹکٹ رانا اسد محمود کو دیدیا تھا جن کا نام حساس ادارے پر حملے کے مقدمہ میں نامزد ہے۔ شکیل شاہد پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی وجہ سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس سے قبل وہ اپنے آبائی علاقے میں یونین کونسل کا الیکشن ہار چکے ہیں۔ پی پی 110 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ڈاکٹر اسد معظم کے کسی بھی پارٹی چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں تاہم 2018 میں مسلم لیگ ن کے ایک نوآموز امیدوار سے شکست کھاگئے تھے۔پی ٹی آئی رہنماو¿ں غلام حیدر باری، رائے حیدر کھرل، حافظ ممتاز، دلدار چیمہ، خالف رفیع چیمہ، ملک عمر فاروق، شہیرداو¿د ، عادل پرویز گجر، عارف گل، سجاد حیدر چیمہ اور کئی ایک دیگران کے بھی پارٹی چھوڑنے کی اطلاعات ہیں۔
پی ٹی آئی