حکومتی کارکردگی کا گورکھ دھندا اور پریشان حال عوام   چوہدری ریاض مسعود

   عالمی مالیاتی اور اقتصادی امور کے ماہرین کی یہصائب رائے ہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی، مالیاتی ، صنعتی ، تجارتی، زرعی پالیسیوں ، سرمایہ کاری اور دیگر سوشل انڈیکیٹرزکا انحصار صحیح اور جامع اعداد و شمار پر ہوتا ہے اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر شعبے میں بظاہر گراف اور اعداد و شمار اوپر کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی نہ کوئی بحران سر  اُٹھا تا ہی رہتا ہے لیکن ہمارے حکمران اپنی کارکردگی کو "مثالی اور ریکارڈ"ظاہر کرنے کے لیے ہر وقت پراپیگنڈاکر کے عوام کی آنکھوں میں  "دُھول جھونکنے"کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ حکومت کے وزراء ، مشیران ،  وزرائے اعلیٰ اور وزیرِاعظم عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے " صرفبیانات"جاری کر کے ہی "اپنا رانجھا" راضی کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں اس وقت حکومت تسلسل سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوتی جارہی ہے حالانکہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بُری طرح نڈھال ہو چکے ہیںاور ان کی قوتِ خرید معدوم ہوچکی ہے۔ کبھی یہ حکمران خود بازار جائیں تو انہیں آٹا دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ دوسری طرف نیپرا ، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے مطالبے پر بجلی کی فی یونٹ قیمتوں میں کئی بار اضافہ کر چکا ہے۔ "فیول ایڈجسٹمنٹ اور دیگر مدات میں بار بار ہونے والے اضافے سے عوام کو "دِن میں تارے"نظر آرہے ہیں لیکن ہمارے حکمران بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ملکی معیشت میں ترقی  ہونے کے مسلسل بلند و بانگ دعوے کررہے ہیں یہ بات تکلیف دہ ہے کہ عام عوام "بلا چون و چراً ٹیکس دینے پر مجبور ہے لیکن حکمران کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی ۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ عوام روز مرہ ضرورت کی جو بھی چیز خریدتی ہے اس پر ڈبوں اور پیکٹوں پر درج ٹیکس بھی ادا کرتی ہے جبکہ حکومتی ایوانوں میں رسائی رکھنے والا امیر طبقہ، تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار اپنی "طاقت کے بل بوتے "پر اپنے لیے جب چاہیں ریلیف بھی حاصل کرتے رہتے ہیں آج کل صنعتی و تجارتی اداروںکی تنظیمیں میڈیا کے ساتھ مل کر ہمارے سب سے اہم لائف لائن شعبے زراعت پر ٹیکس لگوانے کے لیے "ایڑی چوٹی"کا زور لگا رہے ہیں حالانکہ ہمارا کسان کھیت کی تیاری سے فصل کی فروخت تک ہر مرحلے پر ٹیکس دیتا ہے اور اس کے باوجود زراعت اور کسان کے خلاف ٹیکس نہ دینے کا واویلہ"کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟حکومت یہ بات ذہن نشین کرے کہ ہمارے 70 سے 80فیصد کا شتکار صرف ایک سے 25ایکڑ تک زمین کے مالک ہیں اگر صنعتکاروں ، تاجروں کی انجمنوں ، اقتصادی ماہرین میڈیا اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر زراعت پر کوئی بھی نیا ٹیکس لگایا گیا تو پھر ہم ملک کو "نا قابلِ اصلاح زرعی بحران"سے کبھی بھی باہر نہیں نکال سکتے۔ زراعت پر حملہ آور ہونے والے ان دانشوروں سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے اپنی 


-2-
آنکھوں سے دیہات کبھی دیکھے ہیں اور  16ویں صدی جیسی زندگی گزارنے والے کاشتکاروں کی حالت زار کو،  پسماندگی میںگھرے ہوئے دیہی علاقوں کے مسائل کو کبھی  اجاگرکیا ہے ؟  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی"فرضی اعدادو شمارپر ہی بنتی ہے ، جی ڈی پی گروتھ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، گردشی قرضے، بلند شرح سود، زرمبادلہ کے ذخائر میں اتار چڑھاؤ ،  سٹاک ایکسچینج کے گراف، 100 انڈکس میں عدم استحکام ، بیرونی تجارت میں عدم توازن ، سرمایہ کاری میں جمود، مہنگائی کی سونامی فی کس آمدن میں کمی، غیر ملکی قرضوں اور سود میں ریکارڈ اضافہ ، حکومت اور پارلیمنٹ کے اخراجات میں مسلسل اضافہ، تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے سوشل انڈیکیٹرز اور قومی اقتصادی کونسل کے بارے میں صوبوں کے تحفظات سمیت کئی مسائل خدشات اور چیلنجز، حکومت وقتِ کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی مسلسل ہدایات اور مدا خلت سے ہمارے پالیسی ساز چکرا کر رہ گئے ہیں  اور سارا زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ عوام کے گرد مہنگائی اور ٹیکسوں کا شکنجہ مزید "کس"دیا جائے۔ اسی لیے آئی ایم ایف کے اشارے پر ٹیکس ریونیو کے نئے ریکارڈ اہداف مقرر کیے جارہے ہیں ان حالات میں عوام پریشان ہے کہ مالی سال 2024-25کا بجٹ ان کے "کڑاکے"نکال دے گا ۔ دوسری طرف اس ریکارڈ توڑ مہنگائی میں تنخواہ دار طبقے خصوصاً بزرگ پنشنروں کی داد فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے اشارے پر موجودہ پنشن رولز میں جابرانہ تبدیلی اور پنشن پر ٹیکس لگانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ حکومت کو بوڑھے بزرگ پنشنروں پر یہ" ظلمِ عظیم" ، کرنے سے باز رہنا چاہیے اس وقت عوام کے نمائیندوں کو وہ "شاہانہ مراعات"مل رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں "عوام "کے مسائل اور مصائب کب یاد آئیں گے ۔ یہ حقیقت ہے کہ زبردست مالی اور معاشی بحران کے باوجود بھی حکومت کے انتظامی اخراجات بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی حکومت اپنی کارکردگی کونمایاں کرنے کے لیے بھر پور پراپیگنڈہ مہم بھی چلا رہی ہے جس پر یقیناقومی دولت ہی خرچ ہو رہی ہے اس کے علاوہ حکومت کے مختلف محکموں اور اداروں کی ہونے والی تقریبات پر دل کھول کر فضول خرچی ہو رہی ہے عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنی مراعات اور اخراجات کم کرے ۔ سرکاری دوروں، پروٹوکول ،  ٹرانسپورٹ، سفری الاؤنسز اور پٹرول کی مد میں کم از کم 25سے 30 فیصد کی فوری کمی کرے ۔ حکومت توانائی سمیت ہر شعبے میں بچت اور سادگی کو اپنائے ۔ تنخواہ دار طبقے اور بزرگ پنشنروں، صنعتی اداروں  کے ریٹائر ملازمین کی بڑھاپے کی پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے کم ازکم 50فیصد کا لازمی اضافہ کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بزرگ پنشنروں کو میڈیکل کی تمام سہولتیں اور لیبارٹری ٹیسٹ مفت فراہم کرے اور خاص کر ادویات کی موجودہ قیمتوں میں کم از کم 50سے 60فیصد کی کمی کرے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کا خاص خیال کرے اور انہیں بیمہ کروانے ۔ ڈرئیونگ لائسنس بنوانے اور مختصر مدت کے قرضے دینے منصوبہ بندی کرے اس کے علاوہ بے گھر بزرگ شہریوں کو اسان شرائط پر رہائشی مکانات بھی فراہم کرے ۔ عوام کا  یہ اہم مطالبہ ہے کہ پٹرول ، ڈیزل ، مٹی کا تیل سوئی گیس اور، بجلی کی موجودہ قیمتوں میں بھی از کم 30 فیصدکی فوری کمی کرے۔ حکومت کا یہ فرض 


-3-
ہے کہ وہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے  "آئی پی پیز " سے فیصلہ کن مذاکرات کرے تاکہ ملک میں بجلی کے نرخوں میں حقیقتاً کمی لائی جاسکے۔حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کے لیے زیادہ رقم مختص کرنے اور تعلیم و صحت کے بجٹ میں کمی کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ تکلیف دہ خبریں یہ ہیں کہ حکومت پنجاب میں تقریباً 13000/-تعلیمی اداروں کو  آؤٹ سورس کر کے NGOکے حوالے کر رہی ہے  جس سے ہمارے "رہے سہی تعلیمی نظام"کا بھی یقینا بھٹہ بیٹھ جائے گا اور تعلیم مہنگی ہونے کی وجہ سے شرح خواندگی بھی دھڑم سے نیچے گرے گی۔اس وقت پورے ملک میں اس تعلیمی ٹھیکداری نظام کے خلاف پرزور احتجاج جاری ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نجکاری کے جام پینے کی بجائے اپنا قبلہ درست کرے ۔ تعلیمی اور قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی بجائے بہتر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ بحال کرے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں کے تعاون ملک سے کرپشن ، سمگلنگ  دہشت گردی ، جعلی پولیس مقابلے، نا انصافی ، فضول خرچی ، ذخیرہ اندوزی ، منافع خوری ، ملاوٹ ، جعلی ادویات،  بے روزگاری ، غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے ۔حکومت تمام قدرتی معدنی وسائل، آبی وسائل اور انسانی وسائل سے بھرپورا ستفادہ کرے اور اسے ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے زیرِ استعمال لائے ۔ پاکستانی عوام یہ  بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملک میں سونے، تانبے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود ہم قرضوں پر اپنی معیشت کیوں چلارہے ہیں ؟ نہ جانے  ہم کب آئی پی پیز ، عالمی مالیاتی اداروں خاص کر آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے کوئی عملی اقدامات کریں گے؟ یہ دکھ بھری حقیقت ہے کہ ہمارے دوست ممالک ہمارے کشکول گدائی دیکھ دیکھ کر اب تنگ آچکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم عملاً اپنا کشکول گدائی کب توڑیں گے؟ہم اپنے اپنے سیاسی مفادات کو ترک کر کے کب " قومی یک جہتی کی شاہراہ"پر قدم رکھیں گے؟ہمارے حکمران اور اراکین پارلیمنٹ عوام کو قربانی کا بکرا"بنانے کی بجاے خود کب عملی قربانی دیں گے؟عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ ہمارے تمام سیاست دان اور حکمران اپنی اپنی "سیاسی جنگ"ختم کر کے اس وطن کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے با ہم مل کر جدوجہدکریں اور قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف متحدہو کر آگے بڑھیں ۔ یقینا شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور حضرت قائدِ اعظم ؒ ؒ  کے خواب کو عملی تعبیر دینا ہم سب کا فرض ہے اور اسی میں ہم سب کا بھلا، فلاح، ترقی اور خوشحالی پوشیدہ ہے۔ 
 

ای پیپر دی نیشن