قارئین گرامی کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لئے زاویہ نظر کی بہت اہمیت ہوتی ہے عام لوگ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ عینک بدلنے سے دیکھنا بھی بدل جاتا ہے آج ہمارے دشمن نے بڑی کامیابی سے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اپنی عینک پہنا دی ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگ ہمیشہ پاکستان سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے یہ لوگ کبھی اپنے آپ سے یہ سوال نہی کرتے کہ پاکستان نے تو انہیں بہت کچھ دیا ہے کیا انہوں نے بھی پاکستان کو کچھ دیا ہے آج تک؟
قارئین گرامی پاکستان کے حالات کا تجزیہ کرنے سے پہلے تھوڑا پس منظر جاننا ضروری ہے 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی باقاعدہ منصوبہ بندی سے پاکستان کو اثاثوں کی تقسیم، نہری پانی کی تقسیم، فوج کی دیر سے منتقلی اور کشمیر حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضے جیسے لاتعداد ایسے مسائل میں الجھا دیا گیا تھا کہ ان منصوبہ سازوں کے خیال میں پاکستان دو سے تین ماہ کے بعد خود درخواست کر کے دوبارہ متحدہ ہندوستان میں شامل ہو کر اکھنڈ بھارت کا ان کا دیرینہ خواب پورا کر دے گا لیکن اللہ کریم کے فضل اور ہمارے بزرگوں کے جزبوں نے ان تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان کا وجود نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے ترقی کی منازل بھی طے کروانا شروع کر دیں اور پاکستان جو اپنے قیام کے وقت اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی ہمارے ایک ریاست کے نواب صاحب کا محتاج رھا اس نے پہلے ہی عشرے میں دنیا کے کچھ غریب ممالک کی باقاعدہ مالی امداد بھی کی اور ابتدا سے ہی تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم جیسے بڑے منصوبے بھی لگائے اور مختلف النوع صنعتیں بھی لیکن ہمارے دشمن نے بھی ہمت نہی ہاری اور اس نے اس ابتدائی منصوبہ بندی کی ناکامی کے بعد پاکستان میں ذہنی تخریب کاری شروع کر کے کبھی مشرقی پاکستانیوں میں اردو کے خلاف جزبات بھڑکائے تو کبھی لسانی ، نسلی ، جغرافیائی اور فرقہ وارانہ تعصبات پھیلا کر پاکستان ختم کرنے کے لئے اپنی پوری کوششیں جاری رکھیں اور 1971 میں تو بھارتی وزیراعظم نے کھل کر یہ بات بڑے فخریہ انداز میں کہی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اس کے بعد بھارت نے ایٹمی طاقت بننے کے لئے کام شروع کر دیا تاکہ پاکستان کا نام و نشان دنیا کے نقشے سے مٹا سکے لیکن اللہ کریم نے پاکستان کی حفاظت فرمائی اور ہم آج دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہیں اور ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے بدرجہا بہترین ہے
قارئین گرامی کچھ مخصوص عناصر اس پراپیگنڈہ میں بھی مصروف ہیں کہ پاکستان کا سارا زور صرف دفاعی صلاحیتوں کے حصول تک محدود ہے اور پاکستان اقتصادی طور پر بہت کمزور ہے وغیرہ ایسے لوگوں کے علم کو بہتر بنانے کے لئے میں ہماری زرعی ترقی کے کچھ اعداد و شمار ان کے سامنے رکھتا ہوں 1948 میں پاکستان کی گندم کی پیداوار صرف 3 ملین ٹن تھی جوآج 30 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے، گنے کی پیداوار جو 1948 میں 5 ملین ٹن تھی آج وہ 90 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے اسی طرع چاول کی پیداوار آدھا ملین ٹن تھی 1948 میں جو آج 10 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے اور پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کہنے والوں کے لئے یہ حقیقت بھی قابل غور ہونا چاہئے کہ سب مسائل کے باوجود قوت خرید کی برابری کے حوالے سے پاکستان دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت ہے اور مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے پاکستان بد ترین حالات میں بھی چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود دنیا کی 44 ویں بڑی معیشت ہے ہاں قوت خرید امپورٹس پہ صرف کرنے سے زیادہ ضرورت البتہ اس بات کی ہے کہ اسے لوکل پراڈکٹس پہ خرچ کیا جائے تاکہ پاکستان اقتصادی طور پر مضبوط ہو کر اپنے عوام کی زندگیاں بھی آسان بنا سکے
قارئین گرامی پاکستان جغرافیائی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے ارد گرد 5 ایسے وسط ایشیائی ممالک ہیں جن کے پاس سمندری راستے ہی نہی ہیں اسی لئے ہمارے گوادر کی اہمیت ہمارے لئے اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہم اسے قابل عمل بنا سکیں تو صرف ٹرانزٹ ٹرید سے ہی ہمیں ہمارے ملک کے بجٹ سے بھی زیادہ آمدن ہو سکتی ہے اسی لئے دشمن نے باقاعدہ انویسٹمنٹ کر کے سی پیک اور گوادر جیسے پراجیکٹس کو روکنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں مرکوز کر رکھی ہیں لیکن ان شاء اللہ سی پیک بھی ایک اٹل حقیقت کی طرع ایک دن آپریشنل ہو گا اور گوادر بھی
قارئین گرامی ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر کی قسط کے لئے ہمیں کتنا بلیک میل کرتا ہے جب کہ ہمارے بیرون ممالک مقیم پاکستانی ہر سال 35 ارب ڈالر سے بھی زیادہ پاکستان میں بھجواتے ہیں اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد ہماری حکومتوں پر بحال کر دیا جائے تو یہ 35 ارب ڈالر سو ارب ڈالر سالانہ سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں بس ہمیں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم پاکستان کے حوالے سے اپنی عینکیں بدل لیں اور پاکستان کے مثبت پہلو دیکھنا شروع کر دیں تاکہ دنیا بھر میں ہمارا باعزت تشخص بحال ہو ایک اور فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک میں آئی پی پیز کی بلیک میلنگ کو ختم کرتے ہوئے متبادل انرجی جیسا کہ ہائیڈل پاور اور سولر پاور کی طرف فوکس کیا جائے تاکہ اس ملک کے لوگوں کی زندگیوں کو کچھ اورآسان بنایا جا سکے
قارئین گرامی اگر ہم اپنے اس پیارے ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کر دیتے ہیں ، مہنگائی کنٹرول کر دیتے ہیں ، تعلیم اور صحت ریاست کی ترجیح بنا دیتے ہیں اور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کنٹرول کر کے ملک کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کی اجازت نہی دیتے تو یقین کیجئے کہ صرف چند دنوں میں ہی ہم اپنے عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد بحال کر لیں گے اور پھر اس سے ایسے معجزے رونما ہو سکتے ہیں جو ہم نے سوچے بھی نہ ہوں گے مثال کے طور پر ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانی اگر پاکستان میں اپنے اہلخانہ کو صرف پیسے بھجوانے کی بجائے یہاں انویسٹمنٹس بھی کریں تو نہ صرف یہ کہ ہم اپنے پیارے ملک کا قرضہ ایک دن میں اتار سکتے ہیں بلکہ ہمین مزید کسی مدد یا قرضے کی ضرورت نہی رہے گی بلکہ ہم دوسرے ممالک کو قرضہ دینے کی پوزیشن میں آ جائیں گے سب کچھ ممکن ہے اور قابل حصول ہے اگر ہم ذمہ دار پاکستانی بن جائیں اور پاکستان کو دیکھنے کے لئے یا اس پر تبصرہ کرنے کے لئے دشمن کی عینکیں اتار کر ایسی عینکیں پہن لیں جن سے ہمیں اس ملک کے مثبت پہلو بھی نظر آئیں اور ہم آدھا خالی گلاس دیکھنے کی بجائے اسے آدھا بھرا ہوا گلاس کہنا شروع کر دیں اس اپروچ سے ہم ذمہ دار پاکستانی بن جائیں گے اور ہم پاکستان سے توقعات رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لئے مزید کنٹری بیوٹ بھی کرنا شروع کر دیں گے اور اس سے سب کچھ ہی دنوں میں بدل جائے گا ان شاء اللہ