وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حکومت کے سو دن مکمل ہو چکے ہیں جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ صوبے میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے لیکن صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ترقیاتی ، فلاحی اور تعمیری منصوبوں کے اعلانات تو بہت زوروشور سے کئے گئے کہ درباری کہہ اٹھے کہ’’ وہ آیا اس نے دیکھا اور چھا گیا ‘‘لیکن ساری ترقی تشہیر و خود نمائی میں سمٹ کر رہ گئی درحقیقت کسی بھی منصوبے سے عوام کو خاطر خواہ ریلیف حاصل نہیں ہوسکا اور نہ ہی مہنگائی کا عذاب کم ہوا کیونکہ اگر کسی بھی چیز میں دو چار روپے کی کمی کی گئی تو دوسری طرف بجلی کی قیمتیں جو کہ پہلے ہی سارے تاریخی ریکارڈ توڑ چکی ہیں ان میں مزید اضافہ ہوتا رہا مزید کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کیوجہ سے دوکاندارمن مانیاں کرتے رہے۔ اس کاریگری پر عوام سراپا احتجاج رہے مگر خوشامدی واہ وائی کے ڈھول پیٹتے رہے بلکہ حکومت نے سوشل میڈیا کی فوج ظفر موج تیار کر لی ہے جو جو دودھ کی نہریں بہاتی رہتی ہے مزیدحکومتی ترجمان اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں بہت کمی ہوگئی ہے لیکن پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا فیک نیوز کے ذریعے عوام میں بد اعتمادی کی فضا پیدا کررہا جسے لگام ڈالنے کے لیے انتظامات کئے جا رہے ہیں
اگر ہم گذشتہ سو دنوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو ہم پر واضح ہوگا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تعلیمی ، تعمیری ،فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کے جو فیتے کاٹے‘ تاحال کسی میں کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔۔جیسا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اقتدار سنبھالتے ہی ماہ رمضان میں مستحق خاندانوں کو مفت راشن تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا اور تھیلے پر میاں نواز شریف کی تصویر لگائی گئی جس پر مخالفین ہی نہیں عوام کی طرف سے بھی اعتراض کیا گیا مگر مریم صاحبہ نے دوٹوک جواب دیا کہ پنجاب میں حکومت میاں صاحب کی ہے تو تصویر بھی ان کی لگے گی انتخابات سے قبل وزیراعلیٰ صاحبہ دو سو یونٹ بجلی فری کرنے کا نعرہ جلسوں میں لگاتی رہیں جبکہ آئے روز تین سے چار روپے تک اضافہ کر دیا جاتا ہے اور بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار کے بعد یہ اضافے غریب پر قیامت صغری بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔ملکوں کی ترقی وخوشحالی صحت و تعلیم پر منحصر ہوتی ہے تو گذشتہ سو دنوں میں تعلیمی لحاظ سے کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں البتہ ایچی سن کالج کے پرنسپل نے احتجاجاً استعفی دے دیا اور اس استعفی کے خلاف گورنر ہائوس کے باہر طلبا ء اور والدین نے احتجاج بھی کیا مگر کوئی تاریخی فیصلہ سامنے نہیں آیا مزید نوکریوں اور ٹیچرز کی بھرتی کے لئے کسی میرٹ یا ٹیسٹ کا اعلان نہیں کیا گیا ۔۔صحت کے حوالے سے کلینک آف ویلز،ادویات کی گھروں تک فراہمی ، ائیر ایمبولینس اور ہیلتھ کارڈ شروع کیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ ائیر ایمبولینس عثمان بزدار کا منصوبہ تھا جس پر اپنے نام کی تختی لگائی گئی اور صحت کارڈ کو بند کر کے ہیلتھ کارڈ شروع کیا گیا جس پر کوئی پیش رفت نہیں دیکھی گئی جو کہ عام آدمی سے کھلی دشمنی کے مترادف تھا کیونکہ اتنے ٹیکسسز اور مہنگائی میں صحت کارڈ کسی نعمت سے کم نہیں تھا ۔ اگلا نعرہ صاف ستھرا پنجاب تھا‘ سوشل میڈیا پر کچھ صاف علاقوںکی تصویریں بھی جاری کر دی گئیں کہ پنجاب چمک اٹھا ہے مگرہر طرف کچرے کے ڈھیر اور ابلتے گٹردیکھے جا سکتے ہیں ۔پھر کم آمدنی والے گھروں کے لئے ایک لاکھ گھروں ’’اپنی چھت اپنا گھر ‘‘منصوبے کا آغاز کیا گیا لیکن یہ نعرہ پی ٹی آئی نعرے جیسا ہوگا اس بارے کہنا بہت مشکل ہے ۔پنجاب حکومت آئی ٹی سنٹرز کے قیام اور وائی فائی کی سہولت فراہم کرنے میں متحرک نظر آئی لیکن جب سے اقتدار سنبھالا ہے ایکس کی بندش ہے اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ’’ہتک عزت بل ‘‘ منظور ہو چکا ہے جبکہ حکومتی عہدے داران بلکہ خود وزیراعلیٰ پنجاب بھی ایکس پر متحرک ہیں جو کہ سوالیہ نشان ہے !اس کے بعد تندوری مہم چلی اورپہلے روٹی سولہ اور پھر چودہ کی کر دی گئی مگر نان بائیوں نے پیڑہ چھوٹاکرنے کے باوجود روٹی سستی کرنے سے انکار کر دیا اور کسانوں کا کھلے عام استحصال ہوا کہ پنجاب میں پہلی بار گندم نہیں خریدی گئی اور کہا گیا کہ کرپشن کا راستہ بند کر دیا ہے جس پرکسان پوچھتا پھر رہا ہے کہ مہنگے داموں خراب گندم خرید کر ہم پر ظلم کیوں کیاگیا ؟ پولیس یونیفارم پہننے پر وزیراعلیٰ کے عہدے کے وقار پر سوال اٹھے کہ پولیس اصلاحات کے حوالے سے اقدامات ہونے چاہیے تھے مگر پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا نتیجتاً میڈیا رپورٹس کے مطابق جرائم اور بچوں سے زیادتی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں ۔تبدیلی دور میں خان صاحب صحافیوں کے لئے کالا قانون لا رہے تھے تو مریم نواز صاحب جلسوں میں فرمایا کرتی تھیں کہ میڈیا پر پابندی وہ حکومت لگاتی ہے جو ووٹ کی طاقت سے ھکومت میں نہیں آتی اور کار کردگی صفر ہوتی ہے لیکن اپنے دور حکومت میں ’’ہتک عزت بل ‘‘کا نیا قانون انتہائی عجلت میں پاس کروایا جسے صحافیوں نے کالے قانون کا نام دیا ہے اوراپوزیشن اور سارے صحافی سراپا احتجاج ہیں ۔مزید ججز اور مختلف عہدیداران کی تعیناتیوں میں تاخیری حربے زیر بحث رہے ‘ کیا مصلحت تھی اللہ ہی جانے!دو روز پہلے پنجاب حکومت نے ’’مریم کی دستک ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے جبکہ یہ ایپلیکیشن خیبر پختونخواہ حکومت سے ملتی جلتی ایپ دستک کی نقل کی گئی ہے مزید طلباء کے لیے لیپ ٹاپ اور ٹرانسپورٹ کے منصوبے بھی شروع کئے گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ بیکار ہوجاتا ہے جب پیٹ اور جیب خالی ہو :گیس ،پانی کے بل کے علاو ہ کوڑا ٹیکس ، مکان ٹیکس اورمکان کرایہ ادا کر کے پھل فروٹ اور بدن ڈھانپنے کے کپڑے لینے جائے تبھی تو وزیراعلیٰ پنجاب کی سرکاری گاڑی کے ٹائر بدلنے کے روپوں اور مریم نواز صاحبہ کے لکژری جوتے اور کپڑے اس قدر تنقید کی زد میں رہے کہ ترجمان پنجاب حکومت کو وضاحتی بیان دینا پڑا کہ وزیراعلی صرف سات سو آٹھ سو کا سوٹ پہنتی ہیں۔۔جہاں تک عوامی لیڈرکی بات ہے’’ ہنوز دلی دور است‘‘ عوام کو مقبولیت سے زیادہ ریلیف چاہیے اور برسر اقتدار افراد کو سوچنا ہوگاکہ کیا یہ سو دن کی کار کردگی عوامی امنگوں کے مطابق ہے ؟کیا ہم عثمان بزدار کی بر بادی سے نکل آئے ہیں اور راوی چین چین ہی لکھ سکتا ہے ؟
بہرکیف یہ ماننا پڑے گا کہ مریم نواز صاحبہ سیاسی محاذ پر الجھنے کی بجائے حکومتی کارکردگی کے لیے سرگرم ہیں۔ان کے منصوبے واقعی تعمیری ہیں اگر صرف تشہیر کی نذر نہ ہوں اور ان پر سنجیدگی اور دیانتداری سے عملدر آمد کروایا جائے ۔ یہ بھی خوش آئین ہے کہ وہ کار کردگی کی بنیاد پر خود کو منوانا چاہتی ہیں مگرسیاسی مفادات کو ترجیح حاصل ہے جبکہ ناکامیوں کا موازنہ پی ٹی آئی سے کیا جاتا ہے حالانکہ انھیں سمجھنا چاہیے کہ عوام سیاسی بیانیوں سے تنگ آچکے ہیں اور انھیں صرف ریلیف سے مطلب ہے پھر کوئی بھی حکمران ہو کیونکہ خان صاحب بھی ریلیف نہ دینے کی وجہ سے دلوں سے اترنے لگے تھے اگر انھیں اتارنے کی جلدبازی نہ کی جاتی ۔اتارنے سے یاد آیا کہ نو مئی سانحہ میں ملوث با اثر افراد گھروں کو جا چکے ہیںجبکہ غریب سپوٹرز خواتین کو عدالتوں سے بار بار رہائی کے باوجودگرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس پر ہر کسی کا سوال ہے کہ ایک خاتون کے دل میں ان کے لیے رحم کیوں نہیں ہے ؟یقینا سبھی مسائل کا حل مذاکرات سے ہوتا ہے اور ملک کے مفادات کے لیے سیاسی مذاکرات اور مفاہمت ضروری ہے کیونکہ سیاسی استحکام ناپید ہے اور جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا تبتک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے اور یاد رکھیں حکمران کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے لہذا کچھ کر کے دکھائیں اورسیاسی مفادات کو ترجیح نہ دیں