وزیر اعظم کا چین کا پانچ روزہ دورہ مکمل ہو چکاہے۔ یہ دورہ اِس لحاظ سے بھی اہم گردانا جا رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم شہباز شریف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کا پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ اِس لئے بھی اہم تھا کہ ملک معاشی بحران سے گذر رہا ہے اور چین کا تعاون معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ دورے کے دوران اْن ملاقاتیں چین کی اعلی قیادت بشمول چینی صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی کیانگ اور نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ژاوئو لیجی سے ہوئیں۔قیادت کی سطح پر ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو زیرِ بحث لایاگیا۔
وزیرِ اعظم کے دورے کی جھلکیوں اور بعد میں جاری ہونے والے اعلامیے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کیدرمیان ہمہ جہتی تعاون پر مبنی شراکت داری پر کلی اتفاق ہے اور دونوں ممالک تمام اہم شعبوں میں تعاون کو اگلی سطح پر لے جانے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔جاری اقتصادی تعاون میں سی پیک بہت اہم ہے جس کیلئے ایک موثر حکمت ِ عملی کی ضرورت ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت ترقیاتی حکمت عملی اور پالیسی ارتباط بھی ازحد ضروری ہے جس میں ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن، گوادر پورٹ اور قراقرم ہائی وے کی بحالی سمیت بڑے منصوبے شامل ہیں اور یہ ایسے منصوبے ہیں جن کا معاشی بحالی میں اہم کردار ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے ساتھ ساتھ زراعت، انفراسٹرکچر، صنعتی تعاون، بین الحکومتی ترقیاتی امداد، مارکیٹ ریگولیشن، توانائی ، ادویات سازی ، صحت ، ثقافت، زراعت ، برآمدات لاجسٹک، آئی ٹی، سروے ، میڈیا اور فلم کے شعبوں میں تعاون کے 23 معاہدوں اور مفاہمت ناموں پر دستخط کیے گئے۔ اقتصادی تعاون کا ایک ا ہم پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین مزید13 ترجیحی شعبوں کا تعین کیا گیا ہے جن میں سرمایہ کاری کیلئے کام بھی ترجیحی بنیادوں پر کیا جائیگا۔ اِن میں معدنیات ، موبائل فون ، سولر ، آئل ریفائننگ ، فیبرک پروڈکشن، آئرن اور سٹیل کی مصنوعات ، ٹیکسٹائل ، لیدر ، فارما، کیمیکلز ،طبی آلات، جوتے ، کھلونے ، زراعت ، الیکٹرک گاڑیاں ، الیکٹرونکس ، لیپ ٹاپ ، گھریلو اشیاء ، یوریا کھاد ، سیمی کنڈکٹر اور آئی ٹی کے شعبے شامل ہیں۔ اقتصادی سطح پر ،سی پیک جو دونوں ممالک کے درمیان ایک معاشی تعاون کا ایک اہم منصوبہ ہے کیلئے اپ گریڈ ڈ ورژن کے تحت فوری طور پر اقدامات کییجانے پر غور کیا گیا۔
وزیرِاعظم کے دورے کے موقع پرجاری ہونے والا اعلامیہ بھی بہت اہم اور مفصل ہے جو دونوں ملکوں کا مستقبل کے حوالے سے نہ صرف نقطہ نظر واضح کرتا ہے بلکہ دونوں ملکوں کی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات بھی طے کرتا ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت نے دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر اپنے موقف کا اعادہ کیا۔ ماضی میں علاقائی اور بین الاقوامی حالا ت کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوئے دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات پر کبھی بھی اثر انداز نہ ہوئے۔ تمام امور پر مکمل اتفاق رائے دونوں ملکوں باہمی تعلقات کے فروغ کا سبب بھی ہے۔پاکستان اور چین نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک ہمہ جہت تزویراتی شراکت کے پارٹنرز ہیں اور دوست ہیں۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھا، ایک دوسرے پر بھروسہ کیا اور ایک دوسرے کے موقف کی مکمل حمایت کی۔ دونوں ممالک کے مابین 73 سال قبل سفارتی تعلقات ہوئے اور اْس وقت سے لیکر آج تک پاکستان اور چین کے تعلقات ہر لمحے بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کی کسوٹی پر کھڑے ہیں اور ہمیشہ مضبوط اور غیر متزلزل رہے ہیں۔
چین نے اِس بات کو دہرایا کہ پاکستان اورچین تعلقات اِسکے خارجہ تعلقات میں اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کیلئے بھی پاکستان اور چین تعلقات اِس کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز عملی تعاون اور بین الاقوامی اور علاقائی امور پر قریبی تال میل تسلسل سے برقرار ہے۔اِس میں دو رائے نہیں ہیں کے گزشتہ 73 برسوں میں پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات دوستی ، اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر اْستوار ہیں۔ پاکستان نے ون چائنا پالیسی پر اپنے اْصولی موقف کا اعادہ کیا اور چین نے پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ دونوں ملکوں کیلئے ضروری ہے وہ اِن تعلقات کو طویل المدتی نقطہ نظر سے دیکھتے رہیں اور پاکستان اور چین کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے موثر اقدامات کرتے رہیں۔ دونوں ممالک کیلئے یہ بھی اہم ہے کہ وہ سماجی و اقتصادی ترقی اور فلاح و بہبود کو فروغ دیں اور علاقائی امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کو مشترکہ طور پر برقرار رکھنے کیلئے مل کر کام کرتے رہیں۔
وزیرِ اعظم کا دورہ مکمل ہو چکا ہے۔ ہمیںبخوبی اِس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بیجنگ اور شنگھائی میں دیکھے جانیوالے خوابوں اور بنائے جانیوالے منصوبوں پر عمل درآمد پاکستان میں ہونا ہے۔ چین ہر اعتبار سے ایک بڑا اور امیر ملک ہے اور ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارا مخلص دوست ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ تمام یقین دہانیوں ، وعدوں اور معاہدوں پر عمل درآمد کا انحصار اِ س بات پر ہے کہ ہم اْن پر عمل درآمد کیلئے کیا ٹھوس اقدامات کر سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے چین کے تعاون سے پوری طرح مستفید ہونے کیلئے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا شرطِ اول ہے۔ اور اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو چین کو بھیہماری مدد کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمیں معاشی، سیاسی اور سماجی چیلنجز سے نمٹنے کے ایک مستحکم اور سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم سیاسی استحکام اور پاکستان کو درپیش اقتصادی، سیاسی اور سماجی مسائل سے نمٹیں جو ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور یہ کام ہم نے خود کرنا ہے۔ کوئی بھی ہمارے لئے یہ نہیں کرے گا۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا چارج سنبھالنے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے خود جدوجہد کرنا ہوگی۔ چیلنجز پر قابو پانے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ذمہ داری، خود انحصاری، اور ایک فعال ذہنیت بہت اہم ہیں۔ ہمیںیہ سمجھنا ہو گا کہ کامیابی اور مقاصد کے حصول کا راستہ عزم اور احساس کی پگڈنڈیوں سے گذرتا ہے اور تاریخ کی ہر اہم کامیابی لگن اور محنت کے امتزاج کا نتیجہ ہوتی ہے۔ چین کی حیرت انگیز ترقی کی مثال لے لیں۔ چین کی ترقی کی کہانیاں ثبوت ہیں کہ لگن اور محنت سے کچھ بھی ممکن ہے۔
٭…٭…٭