آزاد کشمیر توجہ چاہتا ہے

کچھ عرصہ قبل ’’کشمیر توجہ چاھتا ہے‘‘ کے موضوع پر تشہیری مہم کا آغاز ایک عبارت و نصب العین کی صورت میں کیا گیا تھا جو ہمارے ہمدم دیرینہ حمید شاہین علوی کے رشحات قلم و فکر کا مظہر تھی جسکی تشہیر و ابلاغ مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان صاحب سے کروائی گئی کہ وہ ہمیشہ اس عبارت کی ایک سبز پٹی اپنے سینے پر سجائے رکھتے تھے۔ بیرون ملک جائیں تو seeks Kashmir attention اور اندرون ملک کشمیر توجہ چاہتا ہے۔ یہ ذو معنی جملہ کشمیر پر توجہ کے لئے تھا یا بذات خود صاحب موصوف کے لئے بھی کہ وہ بھی ہمہ وقت توجہ چاہتے ہیں۔ کہتے ہیںکہ اسکی صدائے بازگشت OIC اجلاس منعقدہ جدہ میں بھی سنی و دیکھی گئی تھی۔ وزیر خارجہ وقت آغا شاہی مرحوم نے بھی اس موضوع پر لکھے کتابچے کی تحسین کی تھی۔
میرے موضوع کا تعلق اس عبارت سے نہیں ہے بلکہ میں کشمیر کے بجائے صرف آزاد کشمیر بارے زیادہ فکر مند ہوں کہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اسکے وارث دو کروڑ کے قریب کشمیری اور 24 کروڑ پاکستانی ہیں جن کی ذمہ داری اس مسئلہ کو زندہ رکھنا ہے۔ 
میں فی الحال آزاد کشمیر جس کی آبادی 40/45 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے 20/25 لا کھ آزاد کشمیر اور باقی تارکین وطن کی صورت میں بیرونی ممالک یا پاکستان کے مختلف شہروں میں عارضی طور آباد ہیں ان میں مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان شامل نہیں ہیں۔ 
یہ آزاد ریاست جموں وکشمیر جو اس وقت دس اضلاع اور ساڑھے چار ہزار مربع میل رقبے پر محیط ہے جو تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ ہے عدم توجہ کا شکار ہے جن کے ہاتھ میں بظاہر زمام اختیار دی گئی ہے وہ اپنی صلاحیتوں میں تو بڑے ماھر فلسفی اور ’’حکمت کار‘‘ مانے جاتے ہیں لیکن یہ سنبھالنے کے لائق نہیں کہ انکی پشت پر کوئی سیاسی قوت نہیں ہے انہوں نے جس جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ان کو شیشے میں اتار کر ان سے ووٹ بھی لے لئے اور آج تک کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس سیاسی قوت کے نمائندہ ہیں؟ جنکے ’’نمائندہ‘‘ ہیں یا نمائندہ ہونے کے دعوے دار ہیں وہ کب تک ان کا یہ بوجھ برداشت کر سکیں گے کہ انکی خرابیاں اور لوگوں کی گالیاں تو انکو پڑتی ہیں اور دھاک انکی چلتی ہے۔ 
مجھے تو اس خطہ آزاد کشمیر میں بسنے والے ’’بسنیکوں‘‘ کی حالت زار پر تاسف و افسوس ہے کہ انکے خلاف کیا سازشیں ہو رہی ہیں کہ نہ صرف انکے حقوق آہستہ آہستہ سلب ہوتے جارہے ہیں بلکہ انکی شناخت بھی داؤ پر لگائی جارہی ہے۔ آزاد کشمیر میں جس ماحول کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے سم قاتل سے کم نہیں۔
کشمیریوں کے نزدیک پاکستان ہمارا پڑوسی ملک نہیں ہے بلکہ کشمیری ہی پاکستان ہیں کہ اسی پاکستان کے لئے ہمارے اکابر و اجداد نے سیاسی طور پر اسکے قیام سے پہلے ہی اپنی قسمت اس مجوزہ وطن سے وابستہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جو منصہ شہود پر تو 15 اگست 1947 کو آیا تھا اور ھماری وقت کی قومی پارلیمان کے منتخب ممبران پر مشتمل سیاسی قوت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947 کو ایک قرارداد کے زریعے فیصلہ کر لیا تھا اور مختصر سی جدوجہد کے زریعے 24 اکتوبر 1947 کو اس خطہ کو آزاد کروا لیا تھا اور اسکی آزادی میں اغیار کی کوئی مدد شامل تھی نہ کوئی سفارتی حمایت کی ضرورت پڑی تھی۔ اس ریاست آزاد جموں و کشمیر کو بیس کیمپ Base Camp کا درجہ دیا گیا تھا کہ یہاں ہو کر بقیہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کی جائیگی اور اس پوری ریاست کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے گا۔ ہمارے وہ دوست عزیز برادران جو کشمیر کو خودمختار دیکھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انکی خواہش کو میں ذاتی طور پر عزت و احترام سے دیکھتا ہوں اور انکی رائے میرے لئے قابل تحسین و قابل قبول نہ بھی ہو درخور اعتنا ہے۔ اس لئے کہ جب آپ اپنے نظریات کا احترام دوسروں سے چاہتے ہیں تو دوسرے بھی جو آپ سے اختلاف رائے رکھتے ہوں اسی محبت و احترام کے متقاضی ٹھہرتے ہیں‘ جو آپ اپنے لئے سوچتے ہیں۔ آزادی و خودمختاری کی صورت آج کی ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن جب یہ خطہ آزاد کشمیر آزاد ہوا تھا اسوقت کے پیش نظر موجودہ صورتحال قطعاً نہیں تھی۔ اس وقت کی سیاسی، معاشی، سماجی معاشرتی ضرورت ریاست جموں وکشمیر کے الحاق پاکستان کی تھی، ادغام پاکستان کی تھی اور میرے نزدیک آج بھی ہم اسی جذبہ و عزم پر قائم و دائم ہیں اور ہماری بقا و شناخت کا یہی تقاضا ہے۔ باوجودیکہ مجھے بھی آج کی پاکستان و آزاد جموں وکشمیر کی سیاسی و جمہوری صورت حال سے کچھ تشویش بھی ہے خوف بھی اور تحفظات و خدشات بھی لیکن یہ خوف میرے نظریہ الحاق پاکستان پر غالب نہیں۔
معروف معنوں میں آزادی کا خواب و نعرہ ہر وقت جاذب نظر بھی رہاس اور باعث کشش بھی۔ یہی قوموں کی جبلی اور فطری خواہشات کی تکمیل کا مظہر بھی ہے کہ آج اس کائنات ارضی پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 193 ممالک بطور ممبر جنرل اسمبلی رجسٹرڈ ہیں جن میں فلسطین اور ویٹیکن (City Holy) با ضابطہ طور پر تسلیم شدہ ملک کا درجہ تو نہیں رکھتے لیکن انہیں ممبرز کے مماثل آبزرور کا سٹیٹس حاصل ہے۔ تقسیم ہند کے منصوبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیریوں کے لئے دو آپشن رکھے گئے تھے لیکن اب تیسرے اوپشن کے لئے بھی ایک مؤثر اور متحرک آواز ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں سنائی دے رمہی ہے اس سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے میرے نزدیک یہ کوئی سیاسی یا فوجداری جرم نہیں ہے کہ کسی کو آزادی کی خواہش رکھنے یا خواب دیکھنے پر اس قدر معتوب و مقہور سمجھا جائے کہ اسے ’’را‘‘ یا بھارت کا ایجنٹ یا اس طرح کے ملتے جلتے نام سے یاد کیا جائے۔ میں پورے یقین کامل سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے عوام بھی اہل کشمیر کو اپنے جسم و جاں کا حصہ محض اس لئے نہیں سمجھتے کہ وہ آزاد کشمیر یا ریاست جموں وکشمیر کو انکی مرضی و منشا کے بغیر ہتھیانے کی خواہش کے پیش نظر اپنی محبتوں میں قریب رکھتے ہیں بلکہ جس طرح ھم پاکستان کو اپنے جسم و جان کا حصہ سمجھتے ہیں اسی طرح پاکستان بھی ہمیں اپنے جسم و جاں سے بڑھکر سمجھتا ہے۔ جس کا اس سے بڑھکر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست، ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ بیوروکریسی کسی بھی جگہ ہم پر کوئی قدغن نہیں ھے کہ ھم پاکستان کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں یا ہمارے مستقبل کے فیصلے تک پاکستان میں ہمارے لئے ترقی کے مواقع بند ہوں جس طرح ہم ہر پاکستانی سے بڑھکر پاکستانی ہیں اسی طرح ہم ہر پاکستانی سے بڑھکر عزت و توقیر رکھتے ہیں۔ 
جو لوگ پاکستان کو صرف پاک لوگوں کی سر زمین سمجھتے ھیں اور کہتے ہیں پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ مجھے ان سے بھی بصد احترام اس حد تک اختلاف ہے کہ بانیان پاکستان اور مصور پاکستان کے زہن میں پاکستان کا جو خاکہ تشکیل پایا تھا وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی بنیادوں پر تھا پاکستان کے نام کے بارے میں چوھدری رحمت علی نے جو خاکہ پیش کیا تھا اس میں پنجاب، اسوقت کے مطابق شمال مغربی سرحدی صوبہ جو زیادہ تر افغان آبادی پر مشتمل تھا کشمیر، سندھ بلوچستان (بلوچستان سے ’’تان‘‘ مستعار لیا گیا تھا) اتفاق سے یہ علاقے مسلم اکثریت پر مشتمل تھے لیکن یہاں غیر مسلموں کی بھی ایک خاصی تعداد موجود تھی جن کے مسائل معاش و سیاسیات کے تقاضے یکساں تھے۔ حضرت علامہ اقبال کے تصور پاکستان میں اور نہ چوھدری رحمت علی کے تصور پاکستان میں مذہبی عنصر کی ترجیحات شامل تھیں۔ (جاری) 

1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاھور میں بھی یہ نام نہیں تجویز ھوا تھا یہ ھندو پریس ھی تھا جس نے قرارداد لاھور کو "قرارداد پاکستان" قرار دیا تھا تو بعد میں مسلم لیگ نے بھی یہ تو پھر یہی صحیح کے مصداق اس نام کو ھی اپنا منزل مقصود قرار دے دیا۔
پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الااللہ کا نعرہ بھی قیادت کا نہیں عوام کا تھا اور یہ بھی ایک رد عمل کے طور پر لگایا گیا جب ھندوستان کے معروف دینی مکاتب فکر بالخصوص علمائے دیو بند کی طرف سے قیام پاکستان کی مخالفت ھو رھی تھی تو اس خطے کے جذباتی نوجوانوں نے یہ نعرہ لگایا اور پھر یہ چل گیا بعد میں ان طبقات نے ھی اس نعرے کو زیادہ کیش بھی کرایا جنہوں نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ پاکستان اس لحاظ سے معروف معنوں میں نہ تو کوئی مذھبی ریاست تھی اور نہ اسے سیکولر کا نام دیا جا سکتا ھے پاکستان روشن خیال اور ترقی پسند مسلمان فلاسفر کا خواب تھا جو قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں شرمندہ تعبیر ھوا۔
چونکہ انگریز دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ھندوستان چھوڑنے کی جلدی میں تھا قائد اعظم کی خرابی صحت اور دیگر عوامل کے باعث اس جلدی اور شتابی میں بہت سے معاملات گڈ مڈ ھوتے گئے ان مغالطوں میں پاکستان کے ناک نقشے میں بھی کمی بیشی رھی اور نظریاتی،جغرافیائی اور سیاسی و جمہوری حدود صحیح معنوں میں متشکل نہ ھو سکیں یہ ایک الگ بحث ھے جس کا احاطہ اس وقت مناسب نہیں اسی باعث مسئلہ کشمیر بھی پیدا ھوا اور قضیہ آزاد کشمیر بھی اس وقت زیر بحث آیا۔ تحریکیں جیسی بھی ھوں حسب خواھش تکمیل نہیں پاتی بلکہ حالات کے مدو جزر اس میں خامیوں و بڑھوتری کے موجب ھوتے رھتے ھیں۔
اس تمام تفصیل کا اجمالی ذکر اس لئے کیا گیا کہ آزاد کشمیر کا درد سمجھنے میں سہولت ھو۔ اگرچہ یہ موضوع ایک مضمون یا کالم میں بیان کرنا ممکن ھے نہ قرین انصاف، لیکن آزاد کشمیر کے ارباب حل و عقد اور جن کے ھاتھ میں زمام اختیار ھے اور جنکی سفارشات پر آزاد کشمیر کو ڈیل کیا جارھا ھے اور جس انداز میں ڈیل کیا جارھا ھے یہ آزاد کشمیر کے نظریاتی و عوامی تقاضوں کے مغائر و منافی ھے۔آزاد کشمیر ایک حساس خطہ ھے اور یہاں بسنے والے بڑے بیدار مغز اور محب وطن پاکستانی بھی ھیں اور جو محدود تعداد میں تھرڈ اوپشن کو مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک کرنے کے خواھاں بھی، انہیں پاکستان اور ھندوستان کو یکساں نہیں سمجھنا چائیے اور نہ انکی اکثریت ایسا سمجھتی ھے۔ گو کہ پاکستان کی حکومتوں سے انہیں شکایات اور گلے شکوے ھیں لیکن وہ پاکستان کے دشمن نہیں ھیں اور نہ ھی انہیں پاکستان کے دشمنوں میں شامل کرنے کی کوئی کوشش ھونی چائیے۔ 1970 کی دھائی سے وقفے وقفے سے یہ پروپگنڈا ھوتا رھا ھے کہ کبھی آزاد کشمیر میں اسرائیل آباد ھے کے مضامین شائع کروائے جاتے رھے ھیں تو کبھی راولاکوٹ میں ھندوستان کے ایجنٹ رھتے ھیں یہاں را کاپیسہ تقسیم ھو رھا ھے اور اسوقت یہ کہ یہاں انڈیا کے جھنڈے لگائے گئے ھیں یہ پروپگنڈا کرنے میں اپنے پرائے دانستہ نادانستہ سب شامل ھیں مجھے سمجھ نہیں آتی اسکے مقاصد کیا ھو سکتے ھیں اب اسکو تقویت دینے کے لئے 13 جون کو کوئی کانفرنس بھی راولاکوٹ میں منعقد ھو رھی ھے اس کا موضوع سخن بھی یہی ھوگا ایسی مبنی بر تردید تقریریں کی جائیں گی جو عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق ھوگا۔
میں اسکی پر زور تردید کرتا ھوں کہ راولاکوٹ میں ھندوستان کا جھنڈا کسی نے لہرایا ھے نہ کوھالہ سے کسی نے پاکستان کا جھنڈا اتارا ھے۔پاکستان کے لئے آزاد کشمیر کے عوام کی قربانیوں کی طویل داستان ھے آج بھی وطن کی حفاظت کے لئے کشمیری سرفروشوں کا خون آبادی کے تناسب سے باقیوں سے زیادہ راولاکوٹ پونچھ ڈویڑن سے ھی بہتا واضع نظر آتا ھے اور وزیرستان ھو یا بلوچستان ڈیڈ باڈیز زیادہ یہاں کی ھوتی ھیں۔
میں وفاقی حکومت ذمہ دران،"کٹھ پتلیوں" اور ارباب بصیرت سب سے مخاطب ھوں کہ اس معاملے کی نزاکت کے پیش نظر آزاد کشمیر کے سیاسی جمہوری اور تزویراتی ایشوز کو باریک بینی سے سوچیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو irrelevant کرنے کے نتائج اچھے نہیں ھونگے۔
الحمدللہ پاکستان میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ھے جس کے قائد محمد نواز شریف نے آزاد کشمیر کی ترقی و خوشحالی کے لئے ھمیشہ بڑی فراخدلی کا مظاھرہ کیا آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ میں دوگنا اضافہ ھو CPEC منصوبوں میں آزاد کشمیر کی شمولیت ھو آزاد کشمیر کی ترجیحات کو سر فہرست رکھا گیا وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے 16 ماہ کا دور حکومت ھو یا موجودہ دور حکومت آزاد کشمیر کو سر فہرست رکھا حالیہ 23 ارب روپے کا ریلیف پیکیج اور کابینہ کے حالیہ اجلاس میں مانسہرہ مظفرآباد موٹرویز کے لئے 60 ارب روپے سے زیادہ رقم کی منظوری،دانش سکولوں کا اجرا اور بجلی سے متعلقہ ایشوز اور ھریام رٹھوعہ پل کی فوری تکمیل کے احکامات ایسے اقدامات ھیں جنکی بھرپور تحسین و اظہار تشکر کیا جانا چاہیے۔ عساکر پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے دیگر اداروں میں ھماری نمائندگی اور عزت و توقیر اس امر کی متقاضی ھے کہ آزاد کشمیر میں تلخی کے ماحول کو خوشگوار بنانے میں سیاسی قیادت کو موثر رول اور بھرپور توجہ دی جائے۔ 
آزاد کشمیر سے متصلہ اضلاع بالخصوص ضلع راولپنڈی ایریاز اور آزاد کشمیر میں باھمی نفرت اور رنجشیں پیدا کرنے کی جو دانستہ یا نادانستہ واقعات اور مناقشات کی ایک دوسرے کے خلاف آگ سلگائی جارھی ھے اس کا دونوں جانب نوٹس لینے کی ضرورت ھے اور آزاد کشمیر کے اندر، اندرونی مسائل کا مستقل اور پائیدار حل بھی خصوصی توجہ کے متقاضی ھیں۔ فی الحال اتنا ھی اشارہ کافی ھے بقیہ کسی آئیندہ نشست میں۔۔۔۔۔۔۔۔

سردار عبدالخالق وصی

ای پیپر دی نیشن