’’فال آف ڈھاکہ‘‘ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ ہر طرف مایوسی کے سوا کچھ نہیں تھا ، پوری قوم بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی، جنگی قیدیوں کی واپسی اور درپیش مسائل کا حل کسی کو ہوتا نظر نہیں آتا تھا لیکن غدار، غدار کے نظریے میں بھی کوئی قابل گرفت نہیں ٹھہرا اور نہ ہی’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ کے حقیقی محرکات سامنے لائے گئے کیونکہ ابہام اور افراتفری ہی حکمرانوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ذرا سا گردن گھما کر پیچھے دیکھیں تو میر جعفر، میر صادق، ڈرٹی ہیری کی گردان نظر آئے گی۔ سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو بے نظیر بھٹو سے عمران خان تک سب کے سب ایک دوسرے کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دیتے ملیں گے۔ تین مرتبہ کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف ، زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور حضرت مولانا فضل الرحمان بھی کسی سے کم دکھائی نہیں دیں گے۔ تاہم دو بڑی پارٹیوں کا ’’میثاق جمہوریت‘‘ ہی جمہوری تسلسل کا باعث بنا۔ کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، موجودہ سیاسی اور معاشی بحران میں ’’دھرتی ماں‘‘ کے حوالے سے ’’میثاق معیشت‘‘ ایک ضرورت ہے۔ اس قسم کی سرگرمیوں سے پارلیمنٹ اور قومی اداروں کو استحکام مل سکتا ہے۔ اگر سرجوڑ کر تمام سیاسی طاقتیں مشاورت سے آگے بڑھنے اور مملکت کو مستحکم کرنے کا فارمولا بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے کردار میں کمی نہ آئے، آج سیاسی پارٹیاں اس اہمیت کو سمجھ بھی رہی ہیں لیکن مقبولیت کا برانڈ حکومت اور سیاسی مذاکرات کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں، سابق وزیراعظم کے مقدمات وقت کی ایک حقیقت ہیں، سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اپنے انجام کو پہنچ چکے۔ خان اعظم کا معاملہ بھی ’’سزا اور ریلیف‘‘ کی بھول بھلیوں میں ضرور اختتام پذیر ہو گا لیکن جب 1971ء کے تناظر میں غدار اور وفادار کی لاحاصل بحث کو منصوبہ بندی کے ساتھ پروان چڑھایا جائے گا تو پھر موجودہ دور کی ’’مکتی باہنی‘‘ کا تذکرہ بھی ضرور آئیگا۔ حمایتی جو مرضی کہیں ، مخالفین ’’9مئی‘‘ کی داستان ضرور سنائیں گے کیونکہ اس روز بھی ریاست، ریاستی اداروں اور ریاست کو خون سے سینچنے والوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ سیاہ داغ کس نے کس طرح دھونا ہے اور کس نے اس سے کس طرح بچنا ہے، قوم حقیقت حال جانا چاہتی ہے۔
مصلحت پسندی اور حالات کی نزاکت نے ماضی کی طرح 9مئی کے حقائق بھی ابھی تک منظر عام پر آنے نہیں دئیے۔ لیکن بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے اکائونٹس سے وائرل ہونے والی ویڈیو نے سیاسی اور ریاستی ماحول میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا کر دی، لہٰذا مصلحت پسندی کا دامن نہ پکڑا جائے، حقیقت حال سے آگاہی دی جائے تاکہ حقیقی مسائل کی طرف توجہ دی جا سکے۔ ہمارے پاس ایسے ایسے ارسطو اور بقراط موجود ہیں جو کسی بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی زندگی میں 76سال بہت ہوتے ہیں۔ ہم نے ترقی پذیر اور غریب ملک ہونے کے باوجود اپنے ہنرمندوں، باصلاحیت لوگوں، عسکری اور سیاسی قیادت کی موجودگی میں’’ زیرو سے ہیرو‘‘ کا سفر طے کیا۔ مشکل ترین حالات میں ہمارے سائنسدانوں نے شب و روز کی محنت سے پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت بنا دیا بلکہ میزائل ٹیکنالوجی میں اپنا منفرد مقام پا لیا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دھرتی ماں اور اس کے سپوتوں کو فخر سے سربلند کرنے کا موقع پارلیمنٹ اور قومی اداروں کو استحکام دے کر فراہم کریں، مشاورت سے ایسی روایات اور حدود بنائیں کہ کوئی اعلیٰ ترین بھی آئین اور قانون سے بالا نہ ہو، انصاف ہوتا دکھائی دے۔ عوامی ریلیف اور روزگار کے مواقع میسر آ سکیں۔ صاحب اقتدار اور سیاستدان کچھ چھپائیں نہ ، ماضی سے سبق سیکھیں۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیے دھاندلی اور دھونس کے الزامات لگانے کی بجائے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریں کیونکہ اب تک کے تمام انتخابات متنازعہ ہونے کے باوجود حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، صرف اس لیے کہ حقائق چھپائے گئے اور کسی نے رواداری و برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا، اس موقع پر مجھے ممتاز شاعرجون ایلیا کا یہ شعر یاد آ رہا ہے
’’وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو،
جو باتیں پی گیا تھا میں‘‘
ؒ…………………… (ختم شد)