دہشت گرد اسرائیل اقوامِ متحدہ کی لسٹ آف شیم میں شامل

Jun 10, 2024

دہشت گرد ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری جارحیت کے آٹھ ماہ بعد اقوام متحدہ کو خیال آ ہی گیا ہے کہ اس نے بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنی لاج رکھنے کے لیے اسرائیل کے خلاف کچھ اقدامات بھی کرنے ہیں، لہٰذا غزہ میں بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔یہ فہرست، جسے ’لسٹ آف شیم‘ کہا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے دفتر کی طرف سے پیش کی گئی ایک سالانہ رپورٹ سے منسلک ہے جس میں مسلح تنازعات میں بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درج کیا گیا ہے۔ اس بلیک لسٹ میں روس، افغانستان، صومالیہ، شام اور یمن جیسے ممالک شامل ہیں جبکہ داعش اور بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیموں کے نام بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ جون کے آخر تک شائع کر دی جائے گی۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، گزشتہ ہفتے کے دوران غزہ میں کم از کم پانچ میں سے چار بچے 72 گھنٹوں میں سے پورا ایک دن خوارک کے بغیر رہے ہیں۔ فلسطینی حکومت کے مطابق، کم از کم 32 افراد، جن میں سے بیشتر تعداد بچوں کی ہے، غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک خوراک کی قلت سے جان سے جا چکے ہیں۔
ادھر، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک غیر معمولی سانحہ ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے جبکہ 81 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والے ان فلسطینیوں میں سے کئی جان لیوا زخموں کا شکار ہیں یا طویل عرصے تک معذوری کا سامنا کر رہے ہیں۔ نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار نے ان خیالات کا اظہار ہفتے کے روز استنبول میں ڈی ایٹ کونسل برائے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے میں جمہوریہ ترکیہ اور وزیر خارجہ خاقان فیدان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ دنیا خواتین اور بچوں کی غیر متناسب تعداد کے ساتھ شہریوں کے اندھا دھند قتل کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اسرائیل کی مسلسل اور وحشیانہ جارحیت فلسطینی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کھلی کوشش ہے۔ دنیا بین الاقوامی قانون، عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) کے احکامات کی مکمل طور پر خلاف ورزی کر رہی ہے۔
اجلاس کے دوران اسحاق ڈار نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اس اجتماعی عذاب کو روکنے کے لیے ایکشن لینا چاہیے۔ ہم جنگ کے ہتھیار کے طور پر فاقہ کشی کے استعمال کی مذمت، غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک بہاؤ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آئی سی جے میں اسرائیل کو رفح میں اپنی فوجی کارروائی کو فوری طور پر روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس پر بلا تاخیر عمل کیا جانا چاہیے۔ پاکستان اپنی طرف سے پہلے ہی ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے امدادی سامان کے آٹھ قافلے بھیج چکا ہے۔ غیر متناسب اور مسلسل اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے تباہی کی شدت بے مثال ہے۔ اسحاق ڈار نے اس موقع پر غزہ کی بحالی اور بحالی کے لیے غیر معمولی بین الاقوامی کوششوں کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئیے اکٹھے ہوں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کو بامعنی مدد دینے کے لیے اب عمل کریں۔
اجلاس کے موقع پر اسحاق ڈار نے ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے رفح اور غزہ میں مہاجرین کیمپوں پر اسرائیلی بمباری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے خلاف ہیں۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے لیے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ اس دوران اسحاق ڈار نے ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیدان سے بھی ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے خاتمہ کے لیے ٹھوس عالمی کوششوں پر زور دیا۔ 
پاکستان، ترکیہ اور ایران وہ مسلم ممالک ہیں جو فلسطین کے مسئلے پر دوسرے ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے لے کر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) تک ان تینوں ملکوں نے ناجائز ریاست اسرائیل کے خلاف ہر قسم کے اقدامات کے کردار ادا کیا ہے۔ غزہ میں جو روح فرسا جنگ جاری ہے اس کو آٹھ مہینے مکمل ہوچکے ہیں اور اس دوران شہید ہونے والے چالیس ہزار سے زائد افراد میں سے غالب اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس صورتحال میں ان تینوں ممالک کو چاہیے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مسلم ملکوں کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی طرف آئیں۔ اس سلسلے میں ان خلیجی ممالک سے کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے جنھوں نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے دفاعی نظام اپنے ہاں نصب کررکھے ہیں۔ جب تک ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے جاتے اس وقت تک دہشت گرد اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے سے روکا نہیں جاسکتا۔

مزیدخبریں