پائیدار اقتصادی ترقی ہر قوم کا خواب ہے جس کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ایسی بے شمار عظیم قوموں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور معاشی طاقت بننے کا مشکل کام سر انجام دیا۔ چین کی کامیابی کی کہانی اس ضمن میں ایک نمایاں مثال ہے۔ 2010 کے بعد سے کوئی دوسرا ملک چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ عالمی مالیاتی تحقیقی تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق 2050 میں ایشیائی معیشت پہلے نمبر پر رہے گی اور اس فہرست میں چین امریکہ، جاپان، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کو لیڈ کرے گا۔ مزید یہ کہ مغربی ممالک کی جی ڈی پی 35 فیصد جبکہ ترقی پذیر ممالک کی جی ڈی پی 65 فیصد رہے گا۔ ایشیا کے چھ ممالک جن میں بھارت، جاپان، انڈونیشیا، کوریا، ترکی، فلپائن، ایران اور بنگلہ دیش شامل ہیں، ایشیائی معیشت میں اہم پوزیشن ہولڈر ہوں گے۔اب اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی اقتصادی منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اور یہ اپنے موجودہ معاشی مسائل سے کس طرح نکلے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معاشی خوشحالی کے امکانات اس کے جغرافیائی محل وقوع، وافر قدرتی وسائل، علاقائی رابطوں کے لیے ایک گیٹ وے ہونا اور ٹیک-سیوی (tech-savvy) نوجوان نسل کی صورت میں موجود ہیں۔ تاہم، تمام وسائل کی دستیابی کے باوجود، بدقسمتی سے، پاکستان اس صلاحیت کو پائیدار اقتصادی ترقی میں تبدیل نہیں کر سکا۔ اس کے بجائے ملک کئی دہائیوں سے مسلسل اقتصادی چیلنجوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ ان رکاوٹوں پر قابو پانے اور پاکستان کی حقیقی اقتصادی صلاحیت کو سامنے لانے کے لیے ایک مربوط کوشش اور اسٹریٹجک نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔پاکستان میں معاشی تبدیلی کا ایک اہم محرک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ ایف ڈی آئی (FDI) نہ صرف انتہائی ضروری سرمایہ فراہم کرتا ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور عالمی منڈیوں تک رسائی بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، سیکیورٹی چیلنجز، بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی اور معاشی تنزلی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔کوء شک نہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ ہے بلکہ اس نے علاقائی روابط، امن اور انسانیت کی خوشحالی کے وژن پر مبنی پاک چین دوستی کو مزید مضبوط کیا ہے۔ صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ اقتصادی بحالی کے اہم عوامل ہیں۔ تاہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے مقامی تاجروں کو آگے آنا چاہیے اور توانائی، زراعت، مواصلات اور آئی ٹی کے شعبوں میں سرمایہ کاری شروع کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے SIFC کا پلیٹ فارم مکمل طور پر فعال ہے۔اس کے علاوہ اگر زراعت کی بات کی جاے تو اس بات میں کوء دو رائے نہیں کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن بد قسمتی سے یہ ہماری خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے ملک درآمدات پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ غذائی تحفظ کے حصول اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے ہمیں چینی زرعی صنعت کے ماڈل کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زرعی مصنوعات کی برآمد سے بہت زیادہ منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔ چینی کمپنیاں کارپوریٹ فارمنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس سلسلے میں چینی ریسرچ گروپ کے تعاون سے تحقیقی کام جاری ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی تجارتی وفد کے چین کے گئے حالیہ دورے سے مثبت نتائج کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ بھاری ٹیکسوں کا نفاذ اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، خاص طور پر توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاروباری برادری کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے یہ مسئلہ مستقل حل کا متقاضی ہے۔ اگرچہ پاکستان بزنس کنفیڈنس انڈیکس کے تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کاروباری برادری کی ترقی اور اعتماد میں بہتری آئی ہے، لیکن ابھی ایک بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سیاسی استحکام کے ساتھ سازگار ماحول اور سستے صنعتی انپٹ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی پائیدار اقتصادی ترقی کا راستہ
Jun 10, 2024