روزنامہ نوائے وقت‘ انگریزی اخبار دی نیشن اور وقت نیوز چینل کے زیر اہتمام 8 مارچ 2010ءکو حمید نظامی ہال‘ 4 مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح روڈ پر سہ پہر تین بجے ایک ایسے مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں لاہور کے ممتاز وکلائ‘ صحافیوں اور دانشوروں نے کئی گھنٹے تک اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آج اس مذاکرے کے منتظم خواجہ فرخ سعید نے جن شخصیات کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا ان میں پاکستان کے ایک ممتاز قانون دان اور سابق جج خواجہ محمود احمد‘ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد بشیر ایڈووکیٹ‘ جیوڈیشیل ایکٹوزم پینل کے چیئرمین اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور خاتون رکن پنجاب اسمبلی آمنہ الفت شامل تھیں جبکہ ایک قانون دان عبدالحمید بطور سائل پیش ہوئے چنانچہ مقررین کے دماغ میں مباحثے کے موضوع کا پس منظر تازہ کرتے ہوئے اس مذاکرے کے منتظم نے فرمایا کہ کچھ روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے فرمایا تھا کہ ”عدالتوں کے نظامِ کار کی اصلاح کا جو بِیڑا اٹھایا گیا ہے اس کے صحت مند اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں اور عدالتوں میں رشوت اور کرپشن کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیے جانے کی جدوجہد سے اب تک 98 فیصد کرپشن ختم ہو چکی ہے“ چنانچہ ہمیں تحریک ہوئی کہ چیف جسٹس کی طرف سے اصلاحِ احوال درخواست کنندگانِ حصولِ عدل و انصاف کا واقعی جائزہ لیا جاتا اور اگر اس صورتِ حال کو مزید بہتر بنا دینے کے باب میں مزید کچھ تجاویز سامنے آ جاتیں تو ان پر عمل درآمد سے وہ دو فیصد کرپشن بھی ختم ہو جاتی جو چیف جسٹس کے تجزیے کی روشنی میں بھی ابھی باقی ہے وہ ایک بڑا دلچسپ مرحلہ تھا کیونکہ اخلاقی اور فکری سطح پر بھی اس شخص کو سب سے زیادہ ذلت پسند اور رذیل تصور کیا جاتا ہے جو عدل و انصاف کی فراہمی کے مقدس فریضہ کی ادائیگی کے دوران بھی دوسروں کی جائز کمائی کو ناجائز انداز میں ہتھیانے یعنی رشوت لینے اور کرپشن کرنے کو اپنا مطمع زندگی بنائے بیٹھا ہو یا وہ خود اپنی عدالت میں اس طرح بیٹھا ہو کہ اس کے کارندے عدالت کا سارا وقت سائلین کی جیب میں ”دستِ زراندوز“ داخل کرتے رہنے کے درپے رہتے ہوں‘ اس طرح اس بحث کا آغاز ہوا اور تقریباً تمام مقررین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی عدلیہ نے آزاد فضا میں سانس لینے کے بعد نظامِ عدل و انصاف کی اصلاح اور درخواست کنندگانِ عدل و انصاف کی بہبود و فلاح کے لئے جو اقدامات کئے ہیں اور جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ نہایت حوصلہ افزا اور نتیجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں مگر اس حقیقت کا اعتراف بھی تمام مقررین نے کہا کہ روز افزوں مقدمات کے اندراج و سماعت کے باب میں جج حضرات پر مقدمات کی سماعت کا بوجھ ان کے دائرہ استطاعت سماعتِ مقدمات تک محدود نہیں کیا جاتا‘ رشوت اور کرپشن کی زیادہ شکایت نہیں کرنا چاہئے‘ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد بشیر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس وقت کم و بیش 90 ہزار دیوانی مقدمات زیر
سماعت ہیں اور ایک جج صاحب کو روزانہ ساڑھے تین سو سے چار سو مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے جو انسانی جسمانی استطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ناقابلِ فہم معاملہ نظر آتا ہے اس تعداد کو اس حد تک کم کیا جانا چاہئے کہ تمام مقدمات آسودگی کے ساتھ سماعت بھی کئے جا سکیں۔ آج بحث کا آغاز اظہر صدیق نے کیا تھا‘ انہوں نے فرمایا کہ جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بیان تو درست ہو گا مگر واقعی صورت وہ ہے کہ کرپشن اس طرح ماتحت عدالتی نظام میں سرایت کر چکی ہے کہ اس کی بیخ کنی ناممکن نظر آتی ہے‘ عدالتوں سے تین قسم کے انسانی طبقات مربوط ہیں اولاً عوام‘ ثانیاً وکلاءاور ثالثاً جج حضرات اور ان کا عملہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعتاً ان تینوں طبقات کی اصلاح کی ضرورت ناگزیر ہے۔ 50 فیصد جھوٹے مقدمات کا اندراج و سماعت ہو رہی ہوتی ہے۔ خواجہ محمود احمد نے فرمایا کہ عدلیہ کو آزاد ہو جانے کے بعد بخوبی علم ہو گیا کہ اسے نظام عدل و انصاف کی اصلاح کے لئے کیا اقدامات کرنا ہیں۔ اب صورت وہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ہونے والی تاخیر کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے‘ کریمنل پروسیجر یا سول پروسیجر کا کوئی قصور نہیں بلکہ اصل معاملہ وہ ہے کہ ان کو ناجائز طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے مگر واقعی جج حضرات کی تعداد میں مقدمات کی تعداد کے تناسب سے اضافہ ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت نے ماتحت عدلیہ کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی ہیں چنانچہ رشوت بڑی حد تک کم ہوئی ہے اور چیف جسٹس کی طرف سے قابل ستائش اصلاحی اقدامات بھی جاری ہیں۔
سماعت ہیں اور ایک جج صاحب کو روزانہ ساڑھے تین سو سے چار سو مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے جو انسانی جسمانی استطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ناقابلِ فہم معاملہ نظر آتا ہے اس تعداد کو اس حد تک کم کیا جانا چاہئے کہ تمام مقدمات آسودگی کے ساتھ سماعت بھی کئے جا سکیں۔ آج بحث کا آغاز اظہر صدیق نے کیا تھا‘ انہوں نے فرمایا کہ جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بیان تو درست ہو گا مگر واقعی صورت وہ ہے کہ کرپشن اس طرح ماتحت عدالتی نظام میں سرایت کر چکی ہے کہ اس کی بیخ کنی ناممکن نظر آتی ہے‘ عدالتوں سے تین قسم کے انسانی طبقات مربوط ہیں اولاً عوام‘ ثانیاً وکلاءاور ثالثاً جج حضرات اور ان کا عملہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعتاً ان تینوں طبقات کی اصلاح کی ضرورت ناگزیر ہے۔ 50 فیصد جھوٹے مقدمات کا اندراج و سماعت ہو رہی ہوتی ہے۔ خواجہ محمود احمد نے فرمایا کہ عدلیہ کو آزاد ہو جانے کے بعد بخوبی علم ہو گیا کہ اسے نظام عدل و انصاف کی اصلاح کے لئے کیا اقدامات کرنا ہیں۔ اب صورت وہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ہونے والی تاخیر کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے‘ کریمنل پروسیجر یا سول پروسیجر کا کوئی قصور نہیں بلکہ اصل معاملہ وہ ہے کہ ان کو ناجائز طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے مگر واقعی جج حضرات کی تعداد میں مقدمات کی تعداد کے تناسب سے اضافہ ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت نے ماتحت عدلیہ کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی ہیں چنانچہ رشوت بڑی حد تک کم ہوئی ہے اور چیف جسٹس کی طرف سے قابل ستائش اصلاحی اقدامات بھی جاری ہیں۔