سماعت ہیں اور ایک جج صاحب کو روزانہ ساڑھے تین سو سے چار سو مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے جو انسانی جسمانی استطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ناقابلِ فہم معاملہ نظر آتا ہے اس تعداد کو اس حد تک کم کیا جانا چاہئے کہ تمام مقدمات آسودگی کے ساتھ سماعت بھی کئے جا سکیں۔ آج بحث کا آغاز اظہر صدیق نے کیا تھا‘ انہوں نے فرمایا کہ جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بیان تو درست ہو گا مگر واقعی صورت وہ ہے کہ کرپشن اس طرح ماتحت عدالتی نظام میں سرایت کر چکی ہے کہ اس کی بیخ کنی ناممکن نظر آتی ہے‘ عدالتوں سے تین قسم کے انسانی طبقات مربوط ہیں اولاً عوام‘ ثانیاً وکلاءاور ثالثاً جج حضرات اور ان کا عملہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعتاً ان تینوں طبقات کی اصلاح کی ضرورت ناگزیر ہے۔ 50 فیصد جھوٹے مقدمات کا اندراج و سماعت ہو رہی ہوتی ہے۔ خواجہ محمود احمد نے فرمایا کہ عدلیہ کو آزاد ہو جانے کے بعد بخوبی علم ہو گیا کہ اسے نظام عدل و انصاف کی اصلاح کے لئے کیا اقدامات کرنا ہیں۔ اب صورت وہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ہونے والی تاخیر کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے‘ کریمنل پروسیجر یا سول پروسیجر کا کوئی قصور نہیں بلکہ اصل معاملہ وہ ہے کہ ان کو ناجائز طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے مگر واقعی جج حضرات کی تعداد میں مقدمات کی تعداد کے تناسب سے اضافہ ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت نے ماتحت عدلیہ کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی ہیں چنانچہ رشوت بڑی حد تک کم ہوئی ہے اور چیف جسٹس کی طرف سے قابل ستائش اصلاحی اقدامات بھی جاری ہیں۔
”ماتحت عدالتوں میں عوام کو درپیش مسائل اور ان کا حل“ پر مذاکرہ
Mar 10, 2010
سماعت ہیں اور ایک جج صاحب کو روزانہ ساڑھے تین سو سے چار سو مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے جو انسانی جسمانی استطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ناقابلِ فہم معاملہ نظر آتا ہے اس تعداد کو اس حد تک کم کیا جانا چاہئے کہ تمام مقدمات آسودگی کے ساتھ سماعت بھی کئے جا سکیں۔ آج بحث کا آغاز اظہر صدیق نے کیا تھا‘ انہوں نے فرمایا کہ جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بیان تو درست ہو گا مگر واقعی صورت وہ ہے کہ کرپشن اس طرح ماتحت عدالتی نظام میں سرایت کر چکی ہے کہ اس کی بیخ کنی ناممکن نظر آتی ہے‘ عدالتوں سے تین قسم کے انسانی طبقات مربوط ہیں اولاً عوام‘ ثانیاً وکلاءاور ثالثاً جج حضرات اور ان کا عملہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعتاً ان تینوں طبقات کی اصلاح کی ضرورت ناگزیر ہے۔ 50 فیصد جھوٹے مقدمات کا اندراج و سماعت ہو رہی ہوتی ہے۔ خواجہ محمود احمد نے فرمایا کہ عدلیہ کو آزاد ہو جانے کے بعد بخوبی علم ہو گیا کہ اسے نظام عدل و انصاف کی اصلاح کے لئے کیا اقدامات کرنا ہیں۔ اب صورت وہ ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ہونے والی تاخیر کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے‘ کریمنل پروسیجر یا سول پروسیجر کا کوئی قصور نہیں بلکہ اصل معاملہ وہ ہے کہ ان کو ناجائز طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے مگر واقعی جج حضرات کی تعداد میں مقدمات کی تعداد کے تناسب سے اضافہ ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت نے ماتحت عدلیہ کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی ہیں چنانچہ رشوت بڑی حد تک کم ہوئی ہے اور چیف جسٹس کی طرف سے قابل ستائش اصلاحی اقدامات بھی جاری ہیں۔