لیبیا کے مختلف علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومت کی حامی فورسز اور مخالفین معرکہ آرا ہیں۔ مشرقی علاقوں راس لانوف اور بن جواد میں محاذ آرائی شدت اختیار کرتی جارہی ہے ریسکیو ذرائع کے مطابق صرف بن غازی کے علاقے میں چار سو لوگ اس خونی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جن میں ذیادہ تعداد عام شہریوں کی ہے۔ جھڑپوں میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی ہے۔ عوام کے خلاف طاقت کے استعمال پر روس نے لیبیا کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ لیبیا کے رہنما کرنل معمر قذافی نے سرکاری ٹیلی وژن پر ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی طاقتیں ایک سازش کے تحت لیبیا کے عوام کو غلامی میں دھکیل کر تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ راس لانوف میں تیل تنصیبات کے نزدیک فضائیہ کی شدید بم باری کا سلسلہ جاری ہے۔ مخالفین کی جانب سے طیاروں کو نشانہ بنانے کے لیے راکٹ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ادھر طرابلس میں نیشنل آئل کارپوریشن کے سربراہ ،شکری انم نے بتایا کہ شورش کی وجہ سے لیبیا کی تیل کی پیداوار ایک تہائی سے بھی کم یعنی سولہ لاکھ بیرل یومیہ سے گھٹ کر صرف پانچ لاکھ بیرل رہ گئی ہے ۔ دوسری جانب لیبیا سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مزید تین ہزار باشندے سرحد پار کرکے تیونس پہنچ گئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل جاری نقل مکانی کی وجہ سے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام لگائے گئے کیمپس اور اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ادھر عالمی ادارہ خوراک کا ایک جہاز آٹا اور دیگر امدادی سامان لے کر بن غازی پہنچ گیا ہے