آج تک پاکستان میں کسی بھی حکومت نے وطن عزیز کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی چونکہ بچتوں اور محصولات کی شرح انتہائی معمولی ہوتی ہے اور حکومت کیلئے اپنے ترقیاتی پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے اپنے ذرائع سے مالیات کی فراہمی ممکن نہیں ہوتی ہے چنانچہ اندرونی اور بیرونی ذرائع سے حاصل کردہ قرضوں کے ذریعے معاشی، سماجی، معاشرتی ترقیاتی اور دفاعی اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اپنے سیاسی، دفاعی مقاصد کیلئے پاکستان جیسے ممالک جن کی سٹرٹیجک پوزیشن بڑی اہم ہوتی ہے انہیں سخت شرائط کے تحت مشروط نوعیت کے قرضے دیتا ہے جو کہ معیشت کیلئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اسی کو معاشی نوآبادتی نظام کہا جاتا ہے۔ جس سے قرضوں اور سود کا بوجھ ناقابل حد سطح تک بڑھ جاتا ہے تاہم پاکستان کو کچھ بلاسود قرضے اور گرانٹس بھی ملیں ہیں جن کا بیشتر حصہ بیورو کریسی کی کرپشن کی نذر ہو چکا ہے یا وہ غیر ملکی ماہرین جو ترقیاتی پراجیکٹس کیلئے فراہم کردہ امداد یا نرم قرضے کے ساتھ زبردستی پاکستان پر ٹھونس دئیے جاتے ہیں اسکا بڑا حصہ انکی تنخواہوں اور مراعات پر اُٹھ جاتا ہے تاہم اگر کوئی حکومت ایک یا دو فیصد شرح سود پر غیر ملکی قرضے حاصل کر کے اس سے آمدنی، روزگار اور پیداوار کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کر لیتی ہے کہ آسانی سے قرضوں کی اقساط بمعہ شرح سود طے شدہ وقت پر ادا ہو جاتی ہیں تو پھر غیر ملکی امداد اور قرضوں کے معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان نے قرضوں، گرانٹس اور مالی امداد کو بہت کم ترقیاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اکثر ترقیاتی پراجیکٹس کی امداد کے بڑے حصے بیورو کریسی کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوئے ہوئے۔ پاکستان کو بیرونی امداد اور قرضوں کے دو ذرائع ہیں -1 کنسوریشم ذرائع مثلاً پیرس کلب کے ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ، عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ امدادی کلب عالمی بنک نے قائم کیا جو کہ پاکستان کو ترقیاتی مقاصد کیلئے قرضہ اور امداد فراہم کرتے ہیں۔ 1999ءتک پاکستان نے جو کُل قرضہ بیرونی ذرائع سے حاصل کیا تھا اسکا 45 فیصد پیرس کلب نے دیا تھا چونکہ 9/11 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ملکوں کا ساتھ دیا تو پاکستان کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے براہ راست امداد زیادہ فراہم کرنا شروع کر دی تو پیرس کلب کے قرضے مارچ 2006ءمیں کل قرضے کے 45 فیصد سے کم ہو کر 39.6 فیصد ہو گئے اور مزید اس پر پیرس کلب نے 33 سالوں کیلئے پاکستان کے ذمے قرضوں کو ری شیڈول کر دیا -2 نان کنسوریشم ذرائع : اِن میں آسٹریا، آسٹریلیا، بلغاریہ، چین، چیکوسلواکیہ، ڈنمارک، ہنگری، سپین، رومانیہ، سوئٹزر لینڈ، روس اور سنگاپور شامل ہیں اسکے علاوہ اوپیک ذرائع یعنی تیل پیدا کرنیوالے اسلامی ممالک سعودی عرب، ابوظہبی، ایران، کویت، قطر بھی پاکستان کو امداد اور قرضے فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان کو معاشی ترقی کیلئے سب سے پہلے امداد کولمبو پلان کے ذریعے 1950 میں ملی۔ 1955 میں پہلے پانچ سالہ منصوبے کیلئے پاکستان کو غیر ملکی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے 145 ملین ڈالرز کا قرضہ ملا پھر مسلسل مختلف پانچ سالہ معاشی منصوبوں کی تکمیل کیلئے پاکستان غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھاتا رہا۔ ان پانچ سالہ منصوبوں میں ہمارا واحد کامیاب منصوبہ دوسرا پانچ سالہ معاشی منصوبہ (1960-65) تھا جس کے تمام اہداف حاصل ہوئے۔ علاوہ ہم مسلسل آٹھویں پانچ سالہ منصوبے تک غیر ملکی امداد بے دریغ حاصل کرتے رہے مگر اس سے اہداف حاصل نہ کر سکے اور قرضوں کے بوجھ میں بے تحاشا اضافے کے باوجود ہماری معیشت کی شرح نمو اور فی کس آمدنی بتدریج 2012ءتک محض 3.7 فیصد اور 1372 ڈالرز سالانہ تک پہنچی مگر اس دوران پاکستان کے ذمے کل ملکی اور غیر ملکی قرضے کا حجم جو 1986ءمیں 390 بلین روپے تھا جون 2012ءمیں بڑھ کر 12272 بلین روپے تک چا پہنچا ہے۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک قرضہ بڑھنے کی شرح 18 فیصد سالانہ رہی ہے اگر خام قومی پیداوار کے لحاظ سے اسکا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وزارت خزانہ کے مطابق فروری 2013ءتک کل قرضوں کا حجم 15000 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے یہ شرح جی ڈی پی کے لحاظ سے 62.6 فیصد ہے حالانکہ سٹیٹ بنک نے Fiscal Reponsibility ACT 2005 کے مطابق قانوناً یہ شرح خام قومی پیداوار کے 60 فیصد سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔
دسمبر 1969ءتک پاکستان کے ذمے بیرونی قرضوں کا بوجھ 2.7 ارب ڈالرز تھا اور اس وقت بنگلہ دیش مغربی پاکستان کا حصہ تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 43 برسوں میں ملک پر بین الاقوامی قرضوں میں 2354 فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی غیر ملکی قرضہ 65 ارب ڈالرز سے زائد تک پہنچ چکا ہے۔ سٹیٹ بنک کی حالیہ 2013ءکی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی ذمہ داریوں کا بوجھ 15 ہزار 148 ارب روپے ہے۔ گزشتہ 15 ماہ میں حکومتی قرضوں میں 2 ہزار 618 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو ان مہینوں کے دوران مجموعی حکومتی آمدن سے زائد ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2013ءکی پہلی سہ ماہی میں ملکی بنکوں سے 1200 ارب روپے کے قرضے لے چکی ہے اس طرح پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں 6924 ارب روپے سے زائد قرضے لئے جبکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک تمام حکومتوں نے 4802 ارب روپے قرض لئے۔ اگر پاکستان میں محصولات کے تناست سے اِن قرضوں میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو 2000 سے لیکر اب تک ان میں اضافہ 541 فیصد سے بڑھ کر 630 فیصد ہوا ہے۔ اتنے زیادہ قرضوں کے حصول کے باوجود پاکستان کے بجٹ کا مالیاتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ کر خام قومی پیداوار کا 8.5 فیصد ہو چکا ہے جبکہ 1998-2004 کے دوران یہ خسارہ خام قومی پیداوار کا اوسطاً 2.3 فیصد رہا۔ اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے توازن ادائیگیوں کے خسارے کو بہتر بنانے کیلئے آئی ایم ایف سے 7.8 بلین ڈالرز کا قرضہ لیا تھا۔ اس میں سے صرف پاکستان نے 2.38 بلین ڈالرز واپس کئے ہیں اور 2015ءتک تمام قرضہ ادا کرنا ہے اگر بروقت قسطوں کی ادائیگی نہ ہوئی تو اس قرضے کی رقم میں 21 فیصد اضافہ ہو جائیگا اس وقت پیپلز پارٹی کی رخصت ہونے والی حکومت کو قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے غیر مل کی اداروں کو 960 ارب روپے ادا کرنے ہیں جس کیلئے وزارت خزانہ کے پاس فنڈز نہیں ہیں جبکہ ایف بی آر کے پاس ٹیکس وصولیوں کا ہدف بھی اس ماہ 125 ارب روپے سے کم رہا ہے۔ اگر روپے کی قدر میں مزید کمی ہوئی تو قرضوں پر سود کی مالیت 1100 ارب تک جا پہنچے گی۔ ایک طرف یہ سنگین معاشی صورتحال ہے تو دوسری طرف قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعداد وہ شمار کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ءمیں 47 ارب 17 کروڑ 85 لاکھ کے قرضے معاف کئے ہیں۔ 2009ءمیں 27 ارب 30 کروڑ اور 2011ءمیں 16 ارب 74 کروڑ کے قرضے معاف کئے ہیں لہٰذا آنے والے وقت میں ہماری معیشت میں بہتری کی کیسے گنجائش پیدا ہو گی جبکہ ملکی آبادی میں سے صرف 0.9 فیصد افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین ارشد حکیم کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی میں محصولات کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان دنیا میں ٹیکس وصولی کے لحاظ سے 176 ممالک میں 153 نمبر پر ہے اسکے علاوہ ہماری بچتوں کا تناسب قومی آمدنی کا محض 12.5 فیصد ہے۔ ان حالات میں کیا ہو سکتا۔