بے وقوفوں کی حسیں جنت میں رہتے ہیں سدا
بے وفاﺅں سے بندھی رکھتے ہیں امید وفا
ہم کہ ہیں جھوٹے دلاسوں پر خوشی کی آس میں
موت سے ملتے ہیں ہنس کر زندگی کی آس میں
جانتے ہیں کرنے والے کچھ نہیں ہیں حکمراں
پھر بھی ہم پڑھ پڑھ کے خوش ہوتے ہیں بس ان کے بیاں
صبح کے بھولے ہوئے کب شام کو گھر آئیں گے
قبر میں ہم سو چکے ہونگے وہ جب گھر آئیں گے
کر چکے قربان نسلیں ہم اس امید پر
کوئی خوشخبری سنیں گے آنے والی عید پر
موت بھی سستی نہ ہو پائی غریبوں کے لئے
بدنصیبی بڑھ رہی ہے بدنصیبوں کے لئے
خود ہی ذمہ دار ہیں ہم ہر مصیبت کے لئے
زہر کے یہ جام ہم نے خامشی سے خود پئے
جب کوئی آگے بڑھا ہم لے کے سہرے آ گئے
لے کے لمبی رات کالی، چاند چہرے آ گئے
اب تو لازم ہے کہ ہم ساری حقیقت جان لیں
اپنی ماضی کی خطاﺅں کو سمجھ لیں، مان لیں
اب نہ جھوٹے حکمرانوں کو ذرا بھی ڈھیل دیں
پھر نہ نکلیں سانپ سوراخوں سے ان کو کِیل دیں
سچے اچھے، ڈھونڈ کر لائیں جو اب ہم رہنما
چن کے لائیں ہم وفاداروں کو اور پائیں وفا
بے وقوفوں کی حسیں جنت میں رہنا چھوڑ دیں
دل نہ جن کا ساتھ دیں وہ لفظ کہنا چھوڑ دیں
صرف نعروں سے بدل سکتا نہیں کوئی ہمیں
زندہ رکھ سکتی نہیں یہ لفظی دل جوئی ہمیں