لفظی دل جوئی

Mar 10, 2013

ریاض الرحمن ساغر

بے وقوفوں کی حسیں جنت میں رہتے ہیں سدا
بے وفاﺅں سے بندھی رکھتے ہیں امید وفا
ہم کہ ہیں جھوٹے دلاسوں پر خوشی کی آس میں
موت سے ملتے ہیں ہنس کر زندگی کی آس میں
جانتے ہیں کرنے والے کچھ نہیں ہیں حکمراں
پھر بھی ہم پڑھ پڑھ کے خوش ہوتے ہیں بس ان کے بیاں
صبح کے بھولے ہوئے کب شام کو گھر آئیں گے
قبر میں ہم سو چکے ہونگے وہ جب گھر آئیں گے
کر چکے قربان نسلیں ہم اس امید پر
کوئی خوشخبری سنیں گے آنے والی عید پر
موت بھی سستی نہ ہو پائی غریبوں کے لئے
بدنصیبی بڑھ رہی ہے بدنصیبوں کے لئے
خود ہی ذمہ دار ہیں ہم ہر مصیبت کے لئے
زہر کے یہ جام ہم نے خامشی سے خود پئے
جب کوئی آگے بڑھا ہم لے کے سہرے آ گئے
لے کے لمبی رات کالی، چاند چہرے آ گئے
اب تو لازم ہے کہ ہم ساری حقیقت جان لیں
اپنی ماضی کی خطاﺅں کو سمجھ لیں، مان لیں
اب نہ جھوٹے حکمرانوں کو ذرا بھی ڈھیل دیں
پھر نہ نکلیں سانپ سوراخوں سے ان کو کِیل دیں
سچے اچھے، ڈھونڈ کر لائیں جو اب ہم رہنما
چن کے لائیں ہم وفاداروں کو اور پائیں وفا
بے وقوفوں کی حسیں جنت میں رہنا چھوڑ دیں
دل نہ جن کا ساتھ دیں وہ لفظ کہنا چھوڑ دیں
صرف نعروں سے بدل سکتا نہیں کوئی ہمیں
زندہ رکھ سکتی نہیں یہ لفظی دل جوئی ہمیں

مزیدخبریں