جناب مجیب الرحمان شامی کے گھر کے لان میں وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے ٹی وی کیمروں کو پرے ہٹانے کا ضرور کہا لیکن وہ کچھ آف دی ریکارڈ نہ بتا سکے۔ بہت سی آف دی ریکارڈ باتیں ان دنوں جمشید دستی کی زبان پر ہیں۔ وہ یہ سب کچھ آن دی ریکارڈ کہہ رہے ہیں۔ وہ وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف سے برملا پوچھ رہے ہیں سوہنیاں شکلاں والے ایہہ تیرے کیہہ لگدے۔ ادھر بیچاری کشمالہ طارق کرے بھی تو آخر کیا کرے، ممبر قومی اسمبلی وہ رہی نہیں، لیکن پارلیمنٹ لاجز میں رہنے کا شوق ہے کہ ختم نہیں ہو رہا۔ پھر آکاش بیل کو لپٹنے کیلئے کسی صحتمند درخت کا تنا بھی ضرور چاہئے۔ جمشید دستی کو باتیں بنانے کا خوب موقع مل رہا ہے۔ جمشید دستی بول رہے ہیں زمانہ انہیں بڑے شوق سے سن رہا ہے۔ اب ملک بھر میں لے دے کے دو بندے ہی رہ گئے ہیں جاگیرداری کے خلاف بولنے والے۔ ایک وکیل عابد حسن منٹو اور د وسرے کالم نگار حسن نثار۔ ایک عدالتی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دوسرے صحافتی محاذ پر۔ آپ ایک تیسرے نام جمشید دستی کا بھی اضافہ کر سکتے ہیں ۔ یہ جاگیر داروں کے گڑھ مظفر گڑھ سے جاگیرداروں کو شکست دے کر قومی اسمبلی جا پہنچے ہیں۔ یہ پاکستان کے واحد ممبر قومی اسمبلی ہیں جن کا بی اے کی جعلی ڈگری بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ یہ اس سلسلہ میں پاکستان کی سپریم کورٹ بھی بھگت آئے ہیں۔ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے۔ جعلی ڈگری کیس میں سزا یافتہ گوجرانوالہ سے مدثر قیوم ناہرا، ہائیکورٹ میں وکیل کرنے کی بجائے جمشید دستی کی خدمات حاصل کر لیں تو کچھ اچھا ہو۔ آخر کوئی گیدڑ سنگھی تو ہو گی ان کے پاس تبھی تو کوئی اب تک ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ مدثر قیوم ناہرا اور جمشید دستی ایک ہی نچلی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں یکساں دلیر بتائے جاتے ہیں۔ دونوں ہی محاورے والا سونے چاندی کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے مدثر قیوم ناہرا کے والد محترم محکمہ زراعت سے کچھ نہ کچھ تنخواہ ضرور پاتے ہونگے۔ جبھی تو انہیں کالج جانے کا موقعہ مل گیا۔ سٹوڈنٹس لیڈری کی سیڑھی کے ذریعے امیر کبیر بن جانے والے یہ اکیلے سٹوڈنٹ لیڈر نہیں۔ اس طرح بہت سوں نے مال منال اکٹھا کیا ہے۔ پھر یہ زمینیں اکٹھی کرنے کے چکر میں بی اے کا امتحان پاس کرنے سے رہ گئے۔ ایک مرتبہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا چیچک زدہ بھدا سا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی مسلمان مہارانی نوراں سرکار نے پوچھا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ حسن و جمال بانٹ رہے تھے تو تم اس وقت کدھر کھسک گئے تھے۔ مہاراجہ نے جواب دیا کہ میں اس وقت تخت و تاج ڈھونڈنے نکلا ہوا تھا۔ دیکھئے! روز ازل کی اس ساعت سید عبدالحمید عدم لائے بھی تو کیا اٹھا لائے:؎
عدم روز ازل جب قسمتیں تقسیم ہوتی تھیں
مقدر کی جگہ میں ساغر و مینا اٹھا لایا
خیر! جناب مدثر قیوم ناہرا بی اے کی ڈگری تک نہ پہنچ سکے یا پھر بی اے کی ڈگری ان کے ڈیرے تک رسائی نہ پا سکی۔ یا تو منزل رہ گئی یا رہ گئے منزل سے ہم۔ ادھر جمشید دستی پرائمری سکول کے بعد کبھی سکول نہیں گئے۔ ان کے ’’مستند‘‘ سوانح نگار کالم نگار خالد مسعودیہ وضاحت نہیں کر سکے کہ پہلے جمشید دستی نے آل پاکستان ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدر کی سیکرٹری شپ سنبھالی یا پھر ضلع کچہری مظفر گڑھ میں حافظ احمد بخش کے منشی مقرر ہوئے۔ آپ ان غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑیں اور جمشید دستی کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی پر ایک نظر ڈالیں۔ یہ ضلع کونسل کی لیبر ممبری سے چلتے چلتے بہت جلد ہی قومی اسمبلی تک پہنچ گئے۔ پھر وہ ایک وقت میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے بھی حقدار ٹھہرے۔ اب ممبر قومی اسمبلی ہیں اور پنجابی محاورے کے مطابق’مندا بولتے ہیں او چنگا کھاتے ہیں‘۔ یار لوگ ان کے کھاتے میں الیکشن فنڈ کے نام پر بھتہ پارکو سے ماہانہ کروڑوں روپوں کی تیل چوری میں شراکت داری مظفر گڑھ تھرمل پاور سٹیشن میں تیل کی سپلائی کے گھپلوں میں حصہ داری، قتل اغواء اور منشیات کے مقدمات اور ایسے ویسے کئی اور معاملات ڈالتے ہیں۔ لیکن ایک بات بتائوں، جاگیر داروں کا مقابلہ کرنے کے لئے مال منال تو چاہئے۔ ہم ایک کرپٹ معاشرہ میں رہتے ہیں۔ اس معاشرہ کیلئے موزوں لفظ ’جنگل‘ ہے۔ جہاں کسی طاقتور کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی دوسرے طاقتور کی مدد نہایت ضروری ہے۔ یہاں دو سے ڈاکو کا مقابلہ کرنے کے لئے اشتہاری لال مست سے اسلحہ مانگنا پڑتا ہے۔ مجھے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ وہ 1990ء کے قریب ایس پی میانوالی مقرر ہوئے تھے۔ جب وہ اپنے آئی جی کو سلام کرنے گئے تو انہوں نے اسے نصیحت کی کہ ’’لڑکے! تم میانوالی جا رہے ہو‘ وہاں لال مست سے رابطہ ضرور رکھنا ۔ یہ رابطہ تمہارے لئے وہاں بہت سی آسانیوں کا باعث ثابت ہو گا‘‘۔ میانوالی پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ لال مست ایک نامی گرامی جرائم پیشہ اشتہاری کا نام ہے۔ ایک دور دراز ویران جگہ پر دونوں کی ملاقات کا بندوبست ہو گیا ۔ ان دنو ں دو سے ڈاکو نے میانوالی اور اس کے ارد گرد لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ڈاکہ زنی کی وارداتوں کے بعد دوسہ ڈاکو دریائے سندھ پار کر کے دوسرے صوبے میں چلا جاتا۔ خلق خدا بڑی ہراساں و پریشان تھی۔ وہ ہر با ر گرفتاری سے بچ نکلتا۔ پھر چھلاوے کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر سے آنمودار ہوتا۔ صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے اس کے بارے میں بڑے سخت احکامات تھے۔ ایک مرتبہ وہ گھیرے میں آگیا۔ پولیس مقابلہ شروع ہو گیا۔ لیکن وہ اس موقعہ پر بھی پولیس کا گھیرا توڑ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس مقابلہ میں کئی پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پولیس مقابلہ میں پولیس لال مست سے مانگے ہوئے اسلحہ سے دوسے ڈاکو کا مقابلہ کرنے نکلی تھی۔ مقامی پولیس کے پاس فرسودہ اور دقیانوسی سرکاری اسلحہ تھا۔ ادھر دو سے ڈاکو کے جدید اسلحہ کے مقابلہ میں انہیں جدید اسلحہ ہی چاہئے تھا۔
پس تحریر: میونسپل کاپوریشن گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی میئر میاں محمد عارف انصاری انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک نڈر، بہادر اور باشعور سیاسی کارکن تھے۔ مجھ سے چند برس چھوٹے تھے۔ میرا ان سے ایک محبت کا رشتہ تھا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے اور وارثان کو صبر جمیل۔ ان کی بے وقت موت میرے لئے انتہائی دکھ کا سامان لئے ہوئے ہے…؎
دو چار زندہ رہ گئے، دو چار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
’’لال مست کے اسلحہ سے دوسے ڈاکو کا مقابلہ‘‘
Mar 10, 2014