اب تو نوحے لکھنا بھی بے معنی اور بیکار نظر آتا ہے۔ مجبوروں، مقہوروں کے دُکھ بھی بڑھ رہے ہیں اور ان دُکھوں کے مداوا کے آئینی اور قانونی طور پر ذمہ دار حکمران طبقات کی بے نیازی بھی انتہا درجے کو پہنچتی نظر آ رہی ہے۔ چارہ گروں کے پاس چارہ تو ہے مگر اسے بروئے کار لانے کا ظرف ہی موجود نہیں۔ سانحات پرورش پاتے رہتے ہیں، انسانی دُکھوں کے مداوا کے لئے مجبور انسانوں کی بے بسی کی جھلکیاں بھی نظر آ جاتی ہیں مگر مداوے کی رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب سانحہ رونما ہو جاتا ہے جب سسکتی، کراہتی انسانیت جان سے گزر جاتی ہے اگر پہلے ہی کوئی سبیل کر لی جائے، کسی علاج کو شافی بنا لیا جائے، کسی ڈوبتے کو سہارا دے کر کنارے پر پہنچا دیا جائے، کسی کے سر پر ٹوٹتی افتاد کو ٹال دیا جائے اور کسی کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا کر اپنی منفی سوچ کی بنا پر انتہائی اقدام اٹھانے سے پہلے ہی سنبھال لیا جائے تو کراہتی انسانیت سے معاشرے کے چہرے پر بدنما دھبے لگنے کی نوبت ہی نہ آئے مگر یہاں تو چلن ہی نرالا ہے کہ زندہ کو زندہ درگور کرنا ہے، اسے زندگی میں کوئی راحت اور کوئی سکون کا سانس نہیں لینے دینا مگر جب وہ اپنے حالات سے مایوس ہو کر انتہائی اقدام اٹھا لے تو اس کی بے بسی کی موت کو معاشرے کا روگ بنا کر اسے کیش کرانا ہے۔ تُف ہے ایسے پالیسی سازوں پر جن کی پالیسیاں کسی کی موت کے بعد اُجاگر ہوتی ہیں اور صد حیف ان الفاظ پر جو بے بسوں کی موت کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کی زندگیوں کے نوحے بنا کر اُچھالے جاتے ہیں گویا
اس کے جنازے میں تو ہزاروں شریک تھے
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
ارے یہ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ گھر گھر روگ پل رہے ہوتے ہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور جب کرب و بیان کا منظر بناتا حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو ہر آنکھ اشکبار اور ہر زبان پر دُکھ کا اظہار ہوتا ہے۔ آخر ہم کب تک بے نیازی کی چادر تانے بے حس بنے بیٹھے رہیں گے۔ بے شک عوام کو جان مال کا تحفظ فراہم کرنا، انہیں صحت، تعلیم، روزگار اور اچھے ماحول کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، ریاست کو تو بہر صورت اپنی یہ ذمہ داری نبھانی ہے مگر معاشرے کے متمول افراد کی بھی تو کوئی ذمہ داری ہے۔ اگر من حیث القوم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو ایسا کیوں ہو کہ ایک پڑوسی بھوکا پیاسا مر جائے اور اس کے دوسرے پڑوسیوں کو اس کے مرنے کے بعد خبر ہو، آخر سانجھ کے رشتے میں اتنی بے مروتی کیوں آ گئی ہے کہ ایک انسان کے درد کا دوسرے کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ تو فیض کے شعر کی صورت میں ڈھلا ایسا ہی ماحول ہے کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دُکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے
لاہور کی بسمہ کے ہاتھوں اپنے ہی جگر گوشوں کی خود ہی جان لینے کا سانحہ ہماری معاشرتی گراوٹوں کی انتہا بن کر سامنے آیا تو اس کے اگلے ہی روز ایک سفاک چچا اپنے بھائی کے پانچ جگر گوشوں کو سرعام ایک شاہراہ پر بے یارو مددگار چھوڑ کر رفو چکر ہو گیا اور پھر تھر کے قحط زدہ علاقوں میں حکمرانوں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ کر یکے بعد دیگرے موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی بے بسی کی موت نے تو گھٹن کا ماحول پیدا کر کے سانس لینا بھی دشوار بنا دیا ہے۔ اور پھر اس سے بڑا سفاکانہ مذاق ان بے بسوں کے خاندانوں کے ساتھ بھلا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں مگر تھر کے قحط زدہ علاقوں کے لئے ذخیرہ کی گئی خوراک و ادویات کی ان علاقوں میں فراہمی کا پھر بھی بندوبست نہیں ہو پاتا۔ تُف ہے ان سیاسی بزر جمہروں اور کِرلوں چھپکلیوں پر جو اسی تھر کی تاریخ کو اپنے ناﺅ نوش والے سندھ فیسٹیول کے ذریعے اُجاگر کرتے ہیں اور اس میں اپنے موج میلے کا اہتمام کرتے ہیں مگر اسی تھر کے قحط زدہ باسیوں کی بھوک پیاس کی انہیں اس وقت تک خبر نہیں ہوتی جب تک ان کی موت کی صورت میں ان کی بے بسی کی داستانیں میڈیا کے ذریعے سامنے نہیں آ جاتیں۔
انسانی بے بسی کی المناک داستانیں بننے والے ایسے سانحات یقیناً ایک دم رونما نہیں ہو جاتے ان کے پیچھے سالہا سال کی تلخیاں، محرومیاں کارفرما ہوتی ہیں یعنی
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
سانحہ ایک دم نہیں ہوتا
تو پھر دانشمندی کا کیا تقاضا ہے؟ یہی ناں کہ کسی مرض کے ناسُور بننے سے پہلے ہی اس کا شافی علاج کر لیا جائے۔ سانحہ تھر پر جو نوحہ میانوالی کے ایک دردمند پاکستانی شہری اورنگ زیب خان نے بذریعہ ایس ایم ایس مجھے گزشتہ روز پہنچایا وہ درحقیقت مرض کے بروقت اور شافی علاج کی تدبیروں سے عاری ہمارے حکمران طبقات اور مفاد پرست سیاستدانوں کا نوحہ ہے۔ تھر میں اگر آج عملی طور پر صومالیہ اور ایتھوپیا جیسے قحط کے حالات پیدا ہوئے ہیں اور اس میں سوکھ کر کانٹا بنتے بے بس انسانوں بالخصوص بچوں کی اموات بھی صومالیہ، ایتھوپیا کے بے بس و مجبور انسانوں کی اموات کی عملی تصویر ہی بنتی نظر آ رہی ہیں تو اس میں سارا قصور اور ساری ذمہ داری ان خود غرض سیاستدانوں اور نام نہاد قوم پرستوں کی ہے جنہوں نے ملک کے دشمنوں کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے دریائے سندھ پر آج تک کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی نوبت نہیں آنے دی۔ کیا آج ایسے خود غرضوں کو آئینہ دکھانے کی ضرورت نہیںکہ کالا باغ ڈیم کی بروقت تعمیر و تکمیل ہو جاتی تو تھر کے یہی قحط زدہ علاقے اس سے مستفید ہو رہے ہوتے۔ اس ڈیم کا ایسا ہی فائدہ جنوبی پنجاب کے تھر بنے علاقے چولستان کے مکینوں کو بھی ہوتا جہاں آج بھی انسانوں اور جانوروں کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کی داستانیں ضرب المثل بنی نظر آتی ہےں، پھر ایسے بدخواہوں کو جنہیں ملک کا مفاد عزیز ہے نہ عوام کا، ایسی زہریلی سیاست کے عوض گلچھرے اڑانے کی اجازت کس کھاتے میں ڈالی جائے۔ سو آج کے حکمران طبقات ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں ہی جھانک لیں کہ انہوں نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ہاتھ اُٹھا لئے ہیں تو تھر کے موجودہ حالات کے وہ خود بھی ذمہ دار نہیں ہیں؟ پھر کیا بس معذرت کے ایک خالی خولی، رسمی لفظ کی گولی سے دُکھی انسانیت پر افتاد توڑنے والے سانحہ کی بھلا تلافی ہو سکتی ہے؟ نہیں جناب، ہرگز نہیں، محض افسوس کا اظہار نہیں، آپ کو اب کفارہ بھی ادا کرنا ہے اور یہ کفارہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے اب بلاتاخیر آغاز سے ہی اداہو پائے گا ورنہ تھر کے صحراﺅں سے اُٹھنے والی بے بس انسانوں کی کراہیں بارگاہ¿ ایزدی میں پہنچ کر کرّوفر والے انسانوں کے لئے توبہ کے دروازے بند کرانے کی نوبت بھی لا سکتی ہیں۔ سو آج کوئی چارہ کر سکتے ہو تو کر لو، کل کو آپ کے نام لیواﺅں سے کوئی آپ کے کرّوفر کی داستانیں سُنانے والا بھی نہیں بچے گا۔ بس رہے نام اللہ کا۔