اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سانحہ اسلام آباد کچہری کے دو ذمہ دار افسروں کو انکوائری کمیٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ ڈی سی اور ایس ایس پی کیخلاف کارروائی کی بجائے انہیں تحقیقاتی ٹیم میں نمایاں کردار دیدیا گیا ہے۔ حکومت نے سانحہ کچہری میں غفلت کے مرتکب ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس کے کسی بھی افسر کو تاحال تبدیل کیا نہ ہی انکے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیردل جو سابق چیف سیکرٹری پنجاب کے فرزند ہیں اور وزیراعظم کا قرب بھی انہیں حاصل ہے جبکہ ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوان جو اکثر کرائم سین پر ٹریک سوٹ میں نظر آتے ہیں، دونوں افسران کی غفلت اور پیشہ ورانہ کوتاہی کو نہ صرف نظرانداز کردیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے جونیئر افسران کے مطابق سانحہ کے روز ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے درجنوں بار ماتحت افسران نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم دن گیارہ بجے تک انہوں نے کسی بھی افسر کا فون سننا گوارہ نہیں کیا۔ بعد میں انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ رینجرز کو شوٹ ٹو کل کا حکم نامہ فیکس کریں تاہم انہوں نے معذرت کر لی کہ وہ موقع پر موجود ہیں۔ آن لائن کے مطابق اسلام آباد کچہری میں عدالت عظمیٰکے حکم پر سیکورٹی انتظامات مکمل کرلئے گئے۔ احاطہ کچہری و حساس مقامات پر 70سے زائد خفیہ کیمرے نصب کئے گئے ہیںجنہیں ایک مانیٹرنگ روم کے ذریعے سینٹرالائز کیا گیا ہے ۔ انٹر و ایگزٹ پوائنٹ پر واک تھرو گیٹس نصب کرکے 24 گھنٹوں کیلئے 66 سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ اے ٹی ایس کمانڈوز کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ مانیٹرنگ روم اولڈ ڈی سی آفس میں قائم کیا گیا ہے جہاں 7 اہلکاروں کی 24 گھنٹوں میں تین شفٹوں میں ڈیوٹی ترتیب دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ کچہری اسلام آباد میں واقعہ کے روز تین دھماکے ہوئے۔ دو دھماکے خودکش حملہ آوروں نے خود کو اڑا کر کئے، تیسرا ہینڈ گرنیڈ کا تھا، بم پولیس پر پھینکا گیا جو پھٹ نہ سکا۔ دونوں خودکش حملہ آوروں کی جیکٹ میں چار، چار کلوگرام دھماکہ خیز مواد تھا۔ واقعہ میں 8 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ کرائم سین سے کلاشنکوف کی 17 گولیاں اور 62 خول ملے۔