اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے سانحہ کوٹ رادھا کشن ازخود نوٹس کیس میں ناقص تفتیش اور تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پولیس کا کوئی بڑا افسر قتل ہوتا تو تفتیش میں درجنوں بے گناہ افراد جرم قبول کرچکے ہوتے مگر حیرت کی بات ہے سانحہ میں ملوث 90ملزموں میں سے کسی ایک نے بھی جرم قبول نہیں کیا ہے، ایسے واقعات سے لوگوں میں عدم براشت کا عنصر پیدا ہوتا، جب تک تفتیش جان دار اور مضبوط نہ ہوگی ذمہ دار ملزموں کو سزا نہیں ہو سکتی، کمزور چالان کے باعث ملزم عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں اور بدنام عدالتوں کو کیا جاتا ہے کہ عدالتیں ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں، عدالت نے گواہوں اور ان کے اہل خانہ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا جبکہ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی معاونت کے لئے 3رکنی پراسیکوشن ٹیم تشکیل تفتیش تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ پولیس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ پولیس نے کیس میں 90افراد کو گرفتار کیا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی ایک نے بھی اپنا جرم قبول نہیں کیا، پولیس کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ کتوں تک سے جرم قبول کروالیتی ہے۔ جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ پولیس کی رپورٹ کے مطابق واقعہ سے 12گھنٹے پہلے اسکی پیشگی اطلاع مل چکی تھی پھر بھی پولیس نے کوئی پیش بندی نہیں کی۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ پولیس کو اربوں روپے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں پولیس کا کام معاشرے میں امن و امان قائم کرنا، قانون پر عمل درآمد اور قانون شکن کو گرفتار کرنا ہے، پولیس میں سے واقعہ کی جگہ کون پہنچا تھا؟پولیس کی تفتیش پر کئی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں، پہلے پولیس نے ایک سب انسپکٹر کی تنخواہ روک لی جبکہ واقعہ کے بعد اسے نوکری سے ریٹائرڈ کردیا گیا، بادی النظر میں پولیس ملزموں کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی، بس کاغذی کارروائی کرکے فائلوں کا پیٹ بھرا جا رہا ہے ،کیا اب عدالت ناقص تفتیش کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی کا آغاز کرے ، عدالت نے ریکارڈ فائلوں پر چلنا ہوتا ہے، تفتیش میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ عدالت سماعت میں صرف ملزمان کی تعداد نہیں جاننا چاہتی بلکہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہتی ہے تاکہ آئندہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اگر پہلے ایسے واقعات پر ملزمان کو سخت سزائیں ہوتیں تو ایسے واقعات کو سدباب ہوسکتا تھا، ملک کو انتہا پسند ،دہشت گردوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔بعدازاں عدالت نے گواہوں کو سیکورٹی اور دوبارہ پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24 مارچ تک ملتوی کردی ہے۔
کوئی پولیس افسر قتل ہوتا تو کئی بے گناہ اعتراف کر چکے ہوتے: سپریم کورٹ
Mar 10, 2015