لاہور (محمد دلاور چودھری) پیپلز پارٹی، متحدہ اے این پی اور ق لیگ کی طرف سے چیئرمین سینٹ کے متفقہ اعلان کے بعد نمبرز گیم میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن سے آگے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سینٹ میں 27 نشستوں کے ساتھ پہلے ہی واحد اکثریتی جماعت تھی۔ بلوچستان سے آزاد امیدوار بادینی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد ان کی نشستوں کی تعداد 28 ہوگئی۔ دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے جس کے پاس 26 نشستیں ہیں۔ سینٹ کے کل ارکان کی تعداد 104 ہے چونکہ فاٹا کے 4 ارکان کی نشستیں ابھی خالی ہیں، اس لئے سینٹ کے ارکان کی تعداد 100ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹرز کی تعداد اس وقت 5 ہے جبکہ اب جماعت اسلامی سراج الحق اور عوامی جمہوری اتحاد کے لیاقت ترکئی سمیت ان کے دو اتحادی بھی ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق ان کے ارکان چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں غیرجانبدار رہیں گے۔ سراج الحق ووٹ کا حق استعمال بھی کریں تو کل 96 ارکان ووٹ کا حق اس وقت استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں جن کا نصف 48 بنتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان 28، متحدہ کے 8، اے این پی کے 7 اور ق لیگ کے 4 ہیں، یہ تعداد 47 بنتی ہے۔ اگر اسفند یار ولی کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو فاٹا کے 5 موجودہ ارکان میں سے 3 انکے ساتھ ہیں تو یہ تعداد 50 ہوجاتی ہے جو 96 ورٹرز کے نصف سے زیادہ ہے۔ بلوچستان سے بی این پی (عوامی) کے 2 سینیٹرز ہیں۔ یہ اپوزیشن جماعت بھی اگر دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو یہ تعداد 52 ہوجائے گی۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 26، پختونخواہ میپ اور اتحادیوں کی تعداد 6 ہے جو32 بنتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) حکومتی اتحادی ہے لیکن سینٹ الیکشن میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا ہے۔ اگر فضل الرحمن اپوزیشن کے ساتھ رہتے ہیں تو ان کی عددی قوت 57 ہوجاتی ہے جو فیصلہ کن اکثریت ہے لیکن اگر وہ حکومت کے ساتھ رہتے ہیں توحکومت کے پاس عددی قوت 36 ہوجاتی ہے جو چیئرمین سینٹ کا الیکشن جیتنے کے لئے پھر بھی کافی کم ہے۔ اخترمینگل کی پارٹی کے پاس بھی ایک ووٹ ہے جو حکومت کو ملتا مشکل نظر آتا ہے۔ اس طرح فی الحال نمبرز گیم میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ تاہم آج وزیراعظم نے اتحادی رہنمائوں کا اجلاس بلا رکھا ہے جس میں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپوزیشن کے امیدوار کو سپورٹ کرکے اسے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا متفقہ امیدوار بناکر ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ کیلئے بارگین کرسکتے ہیں۔ اگلا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کون ہوگا، اس کا آج فیصلہ ہوجانے کے امکانات واضح ہیں۔