روشنیوں کے شہر کراچی میں پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر محمدصالح صدیقی کے گھر 2مارچ 1972ءپیداہونے والی ایک لڑکی کے متعلق کون یہ سوچ سکتاتھاکہ وہ دنیاکی سپرپاور کواپنے سامنے انتہائی کمزور ثابت کردے گی ۔مسلک دیوبندسے تعلق رکھنے والے محمدصالح صدیقی کاخاندان مہاجر اور اردو سپیکنگ ہے وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئے۔ اردو سپیکنگ صالح صدیقی برطانیہ کے ماہراداروں کے تجربہ کار نیورو سرجن تھے ۔ان کی والدہ عصمت صدیقی ماضی میں کبھی صدیقی ٹرسٹ کے نام سے اور کبھی بغیر نام سے انسانیت کی خدمت کیلئے سرگرم رہیں ان کی دوسری بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اس وقت بھی پاکستان کی سب سے بہترین نیورولوجسٹ ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ”مرگی©“ کے مرض کی ماہر معالجہ بھی ہیں۔بچپن سے ہی ذہین عافیہ صدیقی نے ابتدائی تعلیم کراچی میںہی حاصل کی اور 1990 ءمیں انٹرمیڈیٹ کاامتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرکے سکالرشپ حاصل کیا،اچھے نمبر حاصل کرنے پر ان کے گھروالوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس ذہین بچی کو اعلی تعلیم کیلئے بیرون ملک بھیجاجائے ،ڈاکٹر محمدصالح صدیقی کابیٹا جو امریکہ میں رہائش پزیرتھا کی بناءپرانڈر گرایجوایٹ عافیہ صدیقی کو سٹوڈنٹ ویزہ پر امریکہ بھیجنے کافیصلہ کیاگیا،امریکہ پہنچ کر5فٹ 4انچ قد کی حامل عافیہ صدیقی نے دل و جان سے تعلیم کے حصول پر توجہ دی اور 1995ءمیں امریکہ کی بہترین یونیورسٹی MITسے BSکی ڈگری حاصل کی اس دوران عافیہ نے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم میں بھی دلچسپی لی اور قرآن مجید بمعہ ترجمہ اور تفسیر حفظ کرلیا۔امریکہ میں رہتے ہوئے عافیہ صدیقی کے معمولات میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات بھی شامل تھی جس کیلئے وہ اولڈ ہاﺅس جاکربوڑھے لوگوں کی خدمت کرکے دلی سکون حاصل کرتی تھیں۔23سال کی عمر میں پہنچنے پر ان کے گھروالوں کوان کاگھربسانے کی سوجھی اور 1995ءمیں ان کی والدہ عصمت صدیقی نے کراچی کے رہائشی انستھیالوجسٹ محمدامجد خان سے رشتہ طے کردیااورٹیلیفون پر ہی عافیہ صدیقی کا نکاح کرادیاگیا،محمدامجد خان کو خود عافیہ صدیقی نے سپانسر کرکے امریکہ بلالیاشادی کے اگلے سال 1996ءمیں پہلی اولاد بیٹا محمداحمدپیدا ہوا،1998ءمیں لڑکی مریم بنت محمد کی پیدائش ہوئی۔ 2001ءمیں ایک معروف تحقیقی ادارے (Brandies)سے عافیہ صدیقی نے نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی کیا 2002 ءمیں بیٹا سلیمان پیدا ہوا۔نائن الیون کے بعد 26جون 2002ءکو عافیہ صدیقی اپنے شوہراور 3بچوں کے ہمراہ پاکستان واپس آگئی اوریہ خاندان کراچی میں رہائش پزیر ہوگیا۔افغانستان میں امریکہ کی القاعدہ کے خلاف جنگ کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے شوہر کو شک پیداہواکہ ڈاکٹر عافیہ کارحجان زیادہ تر افغان جنگ میں زخمی ہونے والے جہادیوں کی جانب ہے اور وہ اس بار ے میں کئی بار انہیں کہہ چکی تھی کہ ہم پاکستان جاکر افغانستان کی سرحد کے قریب رہ کران کاعلاج کرسکتے ہیں۔شادی کے ان سات سالوں کے دوران میاں بیوی کے تعلقات زیادہ اچھے نہ رہے اگست 2002ءمیں محمدامجدخان اپنے سسرال گیااور وہاں جاکر اپنے سسر اور ساس کے سامنے تمام حالات بیان کئے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو طلاق دے دی جس سے ان کے سسر کوبڑا صدمہ پہنچااور ان کی ہارٹ اٹیک سے موت ہوگئی ان کی ساس اپنے شوہر کی موت کاذمہ دار اپنے داماد کوہی قرار دیتی رہیں۔ فروری 2003ءمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کراچی کے ہی عمار البلوچی کے ساتھ دوسری شادی کرلی جو خالد شیخ محمدکابھتیجاتھاخالد شیخ محمدکو القاعدہ سے تعلقات کے شعبہ میں گرفتار کیاگیاتھااس دوسری شادی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھروالے انکارکرتے ہیں،بوسینیامیں سرب بھیڑیوں کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری تھے ہمدرد اور غم گسارڈاکٹر عافیہ کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی تو انہوں نے بوسینیاکے مظلوم مسلمانوں کی مد د کیلئے فنڈز جمع کرنے کی ٹھان لی بس یہی نیک کام عافیہ صدیقی کی زندگی میں ایساموڑ لے آیاجس کی مثال رہتی دنیاتک یاد رکھی جائیگی ، امریکہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے فنڈجمع کرنے کے مشن کو بغیر کسی ثبوت اپنے دشمن نمبر1”القاعدہ “ کیلے فنڈز جمع کرنے کامجرم قرار دے دیا۔عافیہ صدیقی جو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب ڈاکٹر کہلانے کاحق رکھتی تھیں 30مارچ 2003ءکوکراچی سے اسلام آباد جانے کیلئے اپنے بچوں کے ساتھ ریلوے سٹیشن کیلئے ایک ٹیکسی میں روانہ ہوئی تو راستے سے ہی انہیں بچوں سمیت اغوا کر کے امریکی ایجنسی FBIکے حوالے کردیا جنہوں نے ان کوافغانستان بگرام ایئربیس میں پہنچادیا۔بگرام جیل میں ان کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک روا رکھاگیااس کی گواہ آج بھی بگرام جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیاں اور درو دیوار ہیں ، 2003 ءسے 2008ءتک ایک معمولی کمزوربے بس تین بچوں کی ماں کے ساتھ 5سال تک بدنام زمانہ اس جیل میں غیرانسانی سلوک ،ذہنی و جسمانی تشدد اور بربریت کی انتہاکردی گئی ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل میں متعدد بار قرآن پاک کی بے حرمتی کیلئے زبردستی مجبور کیاگیارہائی کالالچ دیاگیالیکن اس پکی سچی مسلمان خاتون نے تمام ترظلم وجبر کے باوجود اس عظیم کتاب کی بے حرمتی سے نہ صرف انکار کیابلکہ اس بابرکت کتاب کی تلاوت سے اس جیل کے درودیوار کواپناگواہ بھی بنالیاجویقینا آخرت میں اس کی بخشش کاذریعہ بنے گا۔دوران قیدنماز روزہ اور تلاوت کلام پاک ہی اس باہمت خاتون کاوطیرہ رہاہے ۔بگرام جیل سے رہاہونے والے ایک قیدی نے بتایاکہ جیل کی خاموش فضاﺅں میں ایک عور ت کے چیخنے کی صدائیں سنائی دیتی تھیں اور وہ چیخیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہی تھیں۔(جاری ہے)
،جیل میں اس مظلوم بے بس اور کمزور صنف نازک پرڈھائے جانے والے انسانیت سوز ظلم کااندازہ 2008ءمیں امریکہ کی جانب سے ظاہرکی گئی گرفتاری کے وقت کی جاری کی گئی تصاویر سے باآسانی لگایاجاسکتاہے دراصل بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کے حوالے سے نومسلم برطانوی صحافی خاتون مریم (ایوان ریڈلی)نے جولائی 2008ءمیں ایک پریس کانفرنس میں مردوں کی جیل میں ایک خاتون کے قیدہونے کابھانڈا پھوڑا ،میڈیاکے زبردست دباﺅ پر امریکی درندوں کوڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کودنیا کے سامنے لانا پڑا اور اعتراف کرنے پر مجبور ہوناپڑاکہ بگرام ایئربیس پرقیدی نمبر650ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے ،اپنی اس رسوائی پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکنز کی جانب سے غزنی میں ایک ڈرامہ رچایاگیاگورنر ہاﺅس میں افغانی پولیس اہلکاروں کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو خودکش بمبار ظاہرکرتے ہوئے شدید زخمی کردیاگیااور اگلے روز FBIکے اہلکار اور امریکن آرمی پوچھ گچھ کیلئے پہنچے اور انہوں نے دنیاکی تاریخ کاسب سے بڑا ڈرامہ رچاکرایک کمزور بے بس اور مجبورعور ت کوامریکہ کیلئے سب سے بڑاخطرہ قرار دے دیایعنی اس پرالزام لگایاگیاکہ اس نے امریکن آرمی کے کمانڈوز سے ایک رائفل چھینی اور ان کومارنے کیلئے ان پر حملہ کردیایعنی امریکن آرمی کے کمانڈوز،ایف بی آئی کے ٹرینڈ اہلکار اورافغانی پولیس سب کے سب اس ایک کمزور عورت کے سامنے بے بس تھے جدید ترین اسلحہ بیکار گیاسب کی سالہاسال کی ٹریننگ بیکار گئی اور ایک شدید زخمی عورت جس کوگولی بھی لگی ہوئی تھی اس نے ان سب کابینڈ بجادیا،لیکن اللہ پاک کاخاص کرم مظلومہ کے ساتھ رہااور دل کے خاصی قریب لگنے والی گولی بھی ڈاکٹر عافیہ کی زندگی کے خاتمہ کیلئے ناکافی ثابت ہوئی ،ایک مرتبہ پھرمیڈیاکے سامنے معاملہ آنے پر شدید زخمی حالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ لے جایاگیااور وہاں اس پر مقدمہ چلایاگیا،امریکی جیلوں میں بھی اس پر شدید ظلم ڈھائے جاتے رہے ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی پرلگائے گئے تمام الزامات انتہائی بھونڈے اور بغیرکسی ثبوت کے تھے لیکن امریکی جج نے انصاف کے تمام تقاضوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اور نسل پرستی کامظاہرکرتے ہوئے بے گناہ ڈاکٹر عافیہ کوامریکی فوجیوں پرجان لیواحملہ کرنے کے الزام سمیت دیگر 6الزامات میں 86سال قید کی سزاسنادی،اپنی 36سالہ آزاد زندگی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے قرآن کاپیغام غیرمسلموں تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ لوگ اندھیروں سے نکل کرروشنی کی جانب آئیں،بوسینیامیں مسلمانوں پرہونے والے مظالم اور ظلم وستم کاشکارہونے والے معصوم لوگوں کیلئے فنڈز جمع کرکے وہاں پہنچانے کاانتظام کیااس کے سوا اس کی زندگی میں کچھ بھی ایسانہیں تھاجس کی بنیاد پر اسے دہشت گرد قرار دیاجاسکے،اس کاشعبہ تعلیم کاشعبہ تھا اور اس کاخواب پاکستان میں ایساادارہ قائم کرناتھا جس میں فلاح انسانیت اور تعلیم کا درس دیاجاسکے،لیکن اس بدقسمت قوم کی بدقسمت بیٹی کواپنوں نے ہی کچھ ایسانہیں کرنے دیاجس کاخواب لیکر وہ اپنے وطن آئی تھی۔جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس وقت اس مظلومہ کوغیروں کی قید میں 14واں سال لگ چکاہے اور آج بھی وہ ٹیکساس کے علاقہ فورٹ ورتھ کے فیڈرل میڈیکل سینٹر کارزویل میں سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے ہرروز سلاخوں کے پیچھے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنے جسم اور روح پرظلم و جور کے گھاﺅ سہہ کرخود سے پکار پکار کر یہ سوال کرتی ہے کہ آخر میرا قصور کیاتھا؟میں اپنے بچوں سے دور کیوں ہوں ؟میں اپنے وطن سے دور کیوں ہوں؟کوئی میرے لیے کچھ کیوں نہیں کرتا؟کیامیراانجام یہی سلاخیں ہیں ؟میں بھی کسی کی بیٹی ہوں ،کسی کی ماں ہوں ،کسی کی بہن ہوں ، پاکستان کے 20کروڑ لوگوں میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے جومجھے یہاں سے چھڑاکرلے جائے؟ میں اپنے پیاروں کے پاس جاﺅں،میں اپنے بچوں کوبانہوں میں بھرلوں میں انہیں اپنی گود میں لے لوں میری مامتاتڑپ رہی ہے،ہے کوئی ہے ایساجومجھے دیار غیر سے رہائی دلادے ؟امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کوپاکستان کو دینے کوتیارہے لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے وہ پاکستان کے غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی سمیت کچھ اور لوگوں کی حوالگی کامطالبہ کرتاہے جو شاید کسی بھی حکومت کیلئے مشکل فیصلہ ثابت ہوسکتاہے ۔ 8مارچ کو پوری دنیا میں ”خواتین کاعالمی دن “ منایاگیا،لیکن عالم اسلام کی ایک بہادر،غیرت مند،مضبوط اعصاب کی مالک ،سچی پکی مسلم عقائد کی حامل ڈاکٹر عافیہ صدیقی آج بھی سلاخوںکے پیچھے کسمپرسی کی حالت میں موجود ہے ،دنیابھرکی این جی اوز اورانسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے میں کچھ کرنے کوتیار نہیں ہیں ۔کیونکہ ان کیلئے شاید یہ معاملہ ”ہاٹ ایشو“ نہیں ہے ۔پاکستانی قوم بھی اس تمام عرصے میں ماسوا نعرہ بازی ،احتجاجی مظاہرے،سوشل میڈیاپر ان کے حق میں کمنٹس ،تصاویر اپ لوڈنگ ،ٹاک شوز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حمایت میں گفتگو اور اخبارات میں ان کے حق میں سطریں لکھنے کے علاوہ اور کیاکرسکتے ہیں۔لیکن ”زنداں “میں درگور زندگی کے بیتے ایک ایک لمحہ کو وہ ہی بہتر جانتاہے جو اس سے گزررہاہے ۔اللہ پاک ایساکوئی معجزہ دکھادے کہ ہم کمزور لوگوں کی عزت خیرو عافیت سے بچ جائے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی صحیح سلامت اپنے وطن واپس پہنچ کراپنوں کے درمیان آجائے انشاءاللہ اب کوئی انہیں گرم ہوابھی نہیں لگنے دے گا۔